Friday, August 12, 2011

دائم کی محبت



نیلگوں وسعتوں میں نور کی دبیز تہہ جیسے طول و عرض کو احاطہ کئے ہوئے تھی۔ وہ دن اتنا مکمل اور روشن تھا کہ اس سے پہلے اس ارض و سماں نے ایسا مکمل اور روشن دن کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس دن کے آنے سے پہلے کتنے عرصے تک اس کی تیاریوں کا عمل ہورہا تھا۔ آج آخرکار وہ دن آگیا تھا۔


ان گنت نورانی پیکر اپنے پر سمیٹے، دم سادھے، با ادب، قطار در قطار کھڑے اس صدا کے منتظر تھے کہ جس کے بعد چار خطے سے اٹھائی کالی چکنی مٹی سے تراشے وجود پر اس وحدہ لاشریک کے نور کی ایک کرن پڑنا تھی۔ زمین پر اس بزرگ و برترہستی کا خلیفہ وجود میں آنا تھا اور اشرف المخلوقات کی تخلیق کا عمل مکمل ہونا تھا۔ وہ سب گوں ناگوں کی کیفیت میں تھے۔


"کیا زمین پر فتنہ نہیں پھیلایا جائے گا۔ کیا زمین ان کے خون سے رنگین نہ ہوگی۔ کیا یہ آپس میں لڑ نہ مریں گے۔" اس کے جواب میں عرش کی کرسی سجائے اس عزیز و حکیم کا فرمان قدرت ہوا "بےشک جو تمہارا رب جانتا ہے وہ تم نہیں جانتے"۔ وہ خاموش ہورہے کہ واقعی وہ تو وہی جانتے تھے جو بتایا گیا تھا اس سے نہ ایک کم نہ ایک زیادہ۔ "بے شک" انہوں نے یک زبان اقرار کیا۔


"کن" کے حکم کے ساتھ ہی جیسے "ہو جانے" کا عمل مکمل ہوا۔ نیلگوں وسعتوں کا طول و عرض سجدہ گاہ بن گیا۔ نہ صرف ساتوں آسمان پر بسی نورانی مخلوق بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ تک تعظیم میں جھک کر اس تخلیق کی عظمت اور بڑائی کا معترف ہوا۔


نور کی کرن نے چکنی مٹی کے پیکر میں جو روح ڈالی تو اس نے موندی آنکھیں پٹ سے کھول دیں۔ اس ادا پر قدرت مسکرا اٹھی۔ اور مسکراہٹ توعالم زر میں اس محبوب کے لبوں پر بھی تھی جسے قدرت نے ساری کائنات میں سب سے پہلے خلق کیا۔ پھر اس کے حب میں زمین و آسمان بچھائے۔ سمندروں اور دریاؤں کو رواں دواں کیا۔ آسمانوں کو وسعتیں عنایت کیں اور زمین کو کہیں بلندیاں تو کہیں گہرائیاں بخشیں۔ زمیں کو اپنے محبوب کے پیکر کے صدقے میں رنگ و خوشبو عطا کی۔ ہاں آج زمین کی تخلیق کا مقصد پورا ہواتھا۔ کیونکہ زمین پر خدا کے محبوب کی آمد کے انتظام کی پہلی کڑی مکمل ہوئی تھی۔


کن کا مالک یہ جانتا تھا کہ جس کو میں نے سب سے پہلے خلق کیا ہے، بنی نوع انسان کے لئے وہ کامل اخلاق کا پیکر اور ضابطہ حیات ہوگا۔ وہ ابراہیمؑ جیسے عالی مرتبت پیغمبر کی دعاؤں کا ثمر ہوگا۔


یہ ایک ایسا عبد ہوگا کہ جو اپنی ہستی کو اپنے معبود کی محبت میں مٹا دے گا۔ اس کا ایک ایک لفظ رضا الہی ہوگا۔ جو اس کے دین کو مکمل کرے گا۔ وہ دین جس کی ابتداء دنیا میں پہلے انسان کے ساتھ شروع ہوگی اور رہتی دنیا تک اس دین کو قائم رکھنے کے لئے یہ عبدؐ اپنے خاندان کے بڑوں چھوٹوں تک کی قربانیاں دے گا۔ اپنا سب کچھ لٹا دے گا۔ بدلے میں کچھ نہیں مانگے گا بس بارگاہ الہی میں شکر ہی ادا کرے گا۔


اس وحدہ لاشریک نے بھی احسان کا بدلہ احسان سے دیا ۔ رہتی دنیا تک اس کے دین پر چلنے والوں پر لازم کردیا، جہاں اللہ کا ذکر ہوگا وہاں اس کے محبوب کا ذکر لازم ہوگا ورنہ عبادت قبول نہ ہوگی۔ اس عبؐد نے اپنے سے وابسطہ ہر چیز، ہر رشتے کو اپنے معبود کی رضا کے لئے قربان کردیا۔ تو اس خالق نے ساری کی ساری آخرت اسے سونپ دی۔ روز جزاء میں شفاعت ان کے دامن میں ڈال دی۔ ان کا مقام اتنا بلند کیا کہ قیامت تک خود رب اور اس کے لاکھوں فرشتے دن رات ان پر درود بھیجتے رہیں گے۔


---------------------------

جب بھی ہم کلمہ پڑھتے ہیں اللہ تعالی کی لاشریکیت کے بعد اس کے محبوب اور آخری پیغمبؐرکی گواہی بھی دیتے ہیں۔ تبھی ہمارا کلمہ مکمل ہوتا ہے۔ تبھی ہمارا دین مکمل ہوتا ہے۔ یہ وہی محبت ہے جو ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک رہے گی۔


یہ دنیا فانی ہے دائم تو اللہ کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ہاں ایک اور چیز کو فنا نہیں۔ وہ ہے روح۔ روح اللہ تعالی کے اپنے نور کی ایک کرن ہے جو اس نے بنی نو انسان کو عطا کر کے اسے تمام مخلوق میں معتبر کردیا ورنہ جانداروں کی کمی تو نہیں تھی زمین پر۔ اس روح میں اللہ تعالی نے ایک اور چیز اپنے اور اپنے حبیب کی محبت کے صدقے میں ودیعت کی ۔ وہ ہے جذبہ محبت۔ اب وہ ایک انسان کا دوسرے انسان سے کسی بھی صورت اور کسی بھی رشتہ میں ہو۔ سارے رشتے ہی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن خالق کی اپنے دین پر چلنے والوں پر کیا خوب عنایت ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو سچے دل سے چاہتے ہیں، ان کی راہ پر چلتے ہیں، ان کے دین کو قائم کرتے ہیں، ان کی محبت کو ساری دنیا کی محبت پر فوقیت دیتے ہیں۔ تو ان کے دلوں کو وہ بزرگ و برتر رب اپنی اور اپنے پیغمبرؐ کی محبت سے منور کردیتا ہے۔ یہ دو محبتیں جو ایک دوسرے کی لازم و ملزوم ہیں اس طرح سے ان کے دل اور روح میں سمو دیتا ہے کہ جس کے آگے ساری محبتیں سرنگوں ہوتی ہے۔ خدا اس محبت کومومن کی روح کی گہرائیوں میں رکھتا ہے ۔اس محبت کو دائمیت بخشتا ہے۔ ساری محبتیں تو مرتے ہی ختم ہوجائیں گی۔ مگر خدا اس محبت کو روح کی طرح لافانی کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس مومن کا ایمان اپنے معراج تک پہنچتا ہے۔ پھر اس کا نفس نفسں مطمئنہ بن جاتا ہے اور اسی نفس کے لئے دائمی فلاح اور نجات مقرر ہے۔


اور یہی بات تھی جو اس وقت فرشے نہ جانتے تھے۔ وہ وہی جانتے تھے جو بتایا گیا تھا۔ نہ ایک کم نہ ایک زیادہ۔ یہ بات صرف دو ہستیاں جانتی تھیں۔ ایک کن کا مالک اوردوسرا عالم زر میں خلق کیا گیا اس کا سب سے پہلا اور محبوب بندہ۔ ہمارے آخری پیغمبرحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭





Friday, June 17, 2011

ایک حقیقت ایک خواب



میں شاید بہت تھکا ہوا تھا اس لئے گہری اور بے خواب نیند سویا تھا۔ ایسے سونا اچھا لگ رہا تھا۔ ۔ ایک عرصے کے بعد اتنی پرسکون نیند میسر ہوئی تھی۔


 
"اوں ہوں۔ ۔ یہ کون کندھا ہلا کر جگا رہا ہے"۔ اسلم ہوگا۔ ۔وہ ہمیشہ ایسے ہی کندھا ہلا کر جگاتا ہے یہ دیکھے بغیر کہ باپ کتنا تھک کر سویا ہے اور وہ بھی انسان ہے کبھی اس کے آرام کا بھی خیال کرلیا کرے۔ یہ زینب بھی ناں کچن میں ایسے گھس جاتی ہے جیسے کچن سے باہر دنیا ہی نہ ہو۔ بچے کہاں ہے، شوہر کہاں ہے کچھ خبر ہی نہیں۔ ۔ لائٹیں پنکھے سارے جل رہے ہوں گے۔ چھوٹی غسل خانے کا نل کھولے کھیل کم اور غسل خانہ زیادہ گیلا کر رہی ہوگی۔ اسلم پورا ولیوم کھولے ٹی وی میں مگن ہوگا۔ ۔ ۔لاحول ولا قوتہ۔ ۔ ۔چھٹی کے دن بھی آرام ندارد۔



 
"اسلم چھوڑو میرا کندھا کیوں جھنجھوڑ رہے ہو یار۔ کچھ دیر سونے دو باپ کو۔" میں کسمسایا۔ ۔ لیکن شاید ایک ہی رخ پر بہت دیر سونے سے سارا جسم اکڑ گیا تھا۔ کسمسانا تو کجا ایک انگلی تک محسوس نہیں ہورہی تھی۔



 
یہ کانوں میں کیسی آوازیں آرہی ہیں۔ کیا نماز کا ٹائم ہے اور اذان ہورہی ہے۔ ۔ ۔"اوں ہوں آج نہیں بھئی بہت تھکا ہوا ہوں کل پڑھ لوں گا۔ ۔ ۔ ارے چھوڑو بھی میرا کندھا دیکھ نہیں رہے ہلنا بھی محال ہے۔ ۔ اٹھ جاؤں گا نا یار نیند تو پوری کر لینے دو۔ ۔ ۔دیکھو کیسی اکڑن ہورہی ہے ہٹو ذرا پلٹنے دو کہ ایک طرف سوتے سوتے جیسے سارا جسم سن سا ہوگیا ہے۔"

 

"یہ کیسی آوازیں ہیں جو مسلسل کانوں کے قریب ہی سنائی دے رہی ہیں۔ ۔ اسلم کے بچے نے کندھا ہلا کر ڈسٹرب کردیا۔ ۔ اب تھکن اور نیند کے مارے دیکھو ایسے ڈروانے خواب۔ ۔ ۔ زینب!۔ ۔ یار کب سمجھو گی۔ ۔ ۔ کہو ناں اس بدتمیز سے کہ ٹی وی کا ولیوم کم کرے۔ ۔پتہ نہیں کیا چل رہا ہے ٹی وی میں۔ ۔ ۔ ۔ سب مسلسل بین کر رہے ہیں۔۔ ۔ چیخ چلا رہے ہیں۔ ۔ ۔ دل ہولائے دے رہے ہیں۔ ۔ ۔اور اسلم کو دیکھو مزے سے دیکھ رہا ہوگا۔ ۔ہونہہ آجکل کے سارے ہی ڈرامے رونے دھونے والے ہوتے ہیں۔ اتنی ٹینشن کی زندگی میں کبھی ہنسانے کا کام بھی کر لیا کریں۔"



 
"ارے۔ ۔ ارے۔ ۔ یہ کیا کر رہے ہو۔ ۔ کیوں مل کر مجھے اٹھا رہے ہو۔ ۔ ۔ اف اف الہی۔ ۔ یہ کیسا درد سارے جسم کو جکڑے ہوئے ہے۔ ۔ میں خود ہی رخ پلٹ لوں گا بھئی۔ ۔ مجھے سارا وقت سیدھا اکڑ کر سونے کی عادت نہیں ہے۔ ۔ ۔ چھوڑو تو سہی۔ ۔ ۔ ایسے کرتے ہیں کتنا درد ہورہا ہے ہر جگہ۔ ۔ ۔مدد ہی کرنا ہے تو ذرا آرام سے یار۔ ۔ ایسے ہی دل کا مریض تو نہیں ہوں۔ ۔ مجھ غریب پر رحم بھی کر لیا کرو۔"


 
"اب کیا ہوا۔ ۔ یہ کہاں پٹخ دیا ہے مجھے۔ ۔ وہیں ٹھیک تھا ناں اپنے آرام دہ بستر پر۔ ۔ یہ کہاں لکڑی کا تختہ نیچے رکھ دیا۔ ۔ ۔ دیکھا زینب۔ ۔ تم گھسی رہو کچن میں اور یہاں یہ لوگ مجھے آرام دینے کے بجائے تشدد پر اتر آئے ہیں۔"



 
"اوہو۔ ۔ اب نیند خراب ہوچکی ہے اسی لئے ایسے خواب آرہے ہیں۔ ۔ ۔لیکن یہ کیسا درد ہے جو سہا نہیں جارہا۔ ۔ ۔ اور یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ۔ ۔ ۔ ایسے خواب تو پہلے کبھی نہیں آئے۔ ۔ کبھی پانی گر رہا ہے۔ ۔ ۔ کبھی بے دردی سے مجھے ہلایا جلایا جارہا ہے۔ ۔ ۔ اور یہ بو کیسی ہے جو مجھے اپنے جسم پر محسوس ہورہی ہے۔ ۔ ۔ یہ کون مجھ پر اس طرح جھکا ہوا ہے۔ ۔ کچھ پڑھ بھی رہا ہے۔ ۔ ۔اور مجھے کسی ٹھنڈے ٹھنڈے کپڑے میں لپیٹ بھی رہا ہے۔ ۔ ۔ آنکھوں میں کیسا حزن ہے یہ۔"



 
"تم!۔ ۔ ۔تم بھائی۔ ۔ ۔ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو۔ ۔ ۔اور کیا ہوا ہے جو تمہاری آنکھوں میں پچھتاوے اور ہمیشہ کے لئے کچھ کھو دینے کا غم ہے۔ ۔ ۔ نہ بھائی۔ ۔ ۔ ایسے نہ رو ۔ ۔ مانا کہ غلطی تمہاری تھی اور برسوں سے ہم نے ایک دوسرے کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ ۔ ۔تم تمہاری زندگی میں تھے۔ ۔ ۔میں میری۔ ۔ ۔جیسے ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے مر ہی تو گئے تھے۔ ۔ مگر ہو تو میرے ماں جائے۔ یہ حقیقت تو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ ۔ ۔آجاؤ اب گلے لگ جاؤ بھائی میں نے تمہیں معاف کیا۔۔ ۔ اب تم بھی مجھے معاف کردو۔ ۔ ۔ لیکن دیکھو پہلے یہ کافور و لوبان یہاں سے ہٹاؤ۔۔ ۔ اس کی خوشبو مجھے ہولائے دے رہی ہے۔ ۔ ۔ جیسے خدانخواستہ۔ ۔"



 
"دیکھو زینب! بھائی آگیا۔ ۔ ۔میں نہ کہتا تھا وہ میرا بھائی ہے۔ ۔ ضرور آئے گا۔ ۔ ۔ارے زینب رو کیوں رہی ہو۔ ۔ ۔ کسی نے کچھ کہہ دیا کیا۔ ۔ ۔اور اسلم اور چھوٹی کو کیا ہوا۔ ۔ ۔ایسے تڑپ تڑپ کر کیوں رو رہے ہو تم لوگ۔ ۔ ۔ میرے دل کو جانے کیا ہورہا ہے۔ ۔ ۔دیکھو ایسے نہیں روتے۔ ۔ ۔ مانا مجھ سے بہت بھول ہوئی ہیں۔ ۔ تمہارے حقوق میں بھی شاید کوتاہی ہوئی ہے۔ ۔ ۔ مگر انسان ہوں نا۔ ۔ ۔ معاف کردو یار۔ ۔ ۔ اب ایسا نہیں کروں گا۔"


 

"یہ سب اتنی میٹھی زبان میں کیا پڑھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ کہ ان کے پڑھنے سے نور سا پھیل رہا ہے۔ ۔ ہاں! میں سمجھ رہا ہوں یہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ میں بچپن سے پڑھتا آرہا ہوں۔ ۔ ۔ اب تو اسلم بھی ایسے ہی میٹھی آواز و لہجے میں پڑھتا ہے۔ ۔ ۔اور ہاں چھوٹی نے بھی تو شروع کردیا ہے۔ ۔ ۔میرے دہلتے لرزتے دل کو سکون سا مل رہا ہے۔ ۔ ارے ! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں۔"



 
"تم نے دیکھا زینب!۔ ۔ ۔ یہ میری گناہگار آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں۔ ۔ ۔ اماں ابا آئے ہیں۔ ۔ میرے سرہانے بیٹھے ہیں۔ ۔ ۔ مجھے یقین نہیں آرہا۔ ۔ کیسا نور پھوٹ رہا ہے ان کے چہروں پر۔ ۔ ۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔ ۔ ۔ آہ کتنا اچھا لگ رہا ہے اماں ابا کو دیکھ کر۔ ۔ کس قدر ہول اٹھ رہے تھے۔ ۔ ۔ڈر سے میرا دل بیٹھا جارہا تھا۔ ۔ ۔ لیکن ان کی موجودگی سے دل کو سکون مل گیا ہے۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ اور کوئی اور بھی ہستی ہے یہاں۔ ۔ ۔"



 
"میں محسوس کر رہا ہوں۔ ۔ ۔ لیکن سمجھ نہیں پارہا کون ہے۔ ۔ ۔ اتنا زیادہ نور پھیلا ہوا ہے کہ آنکھیں چندھیا گئی ہیں۔ ۔ ۔ میں اس نور کی عظمت و بلندی اور اس کے احترام میں سرنگوں کائنات کے ذرے ذرے کو محسوس کر رہا ہوں۔ ۔ ۔ میرا سر شرم سے جھکا ہوا ہے۔ ۔ ۔ یہ میرے خالی ہاتھ اور وجود پر کیسا ان دیکھا بوجھ ہے جس کے تلے میں دھنس رہا ہوں۔ ۔ ۔دل ان کی طرف کھنچ رہا ہے۔ میں ان تک پہنچنا چاہ رہا ہوں۔ ۔ لیکن میرے وجود ہر یہ کیسا غلیظ بوجھ پڑا ہے کہ میں ہل بھی نہیں پا رہا۔ ۔ ۔ میں ہاتھ پیر مار رہا ہوں۔ ۔ ۔خدارا۔ ۔ خدارا اس بوجھ سے نکال مجھے۔"

 

"لوگو! مدد کرو میری، اٹھاؤ مجھے۔ ۔ ۔ میں بے بس ہوں۔ ۔ لاچار ہوں۔ ۔ ۔ یہ میرے ہاتھ، میرے پیر، میرا جسم منوں وزنی ہے۔ میری زبان پر یہ کیسا تالا ہے۔ ۔ ۔ آہ کوئی مجھے اس بوجھ سے چھٹکارا دلائے۔ ۔ ۔ لوگو مجھے اس نور کے پیچھے جانے دو۔ ۔ ۔ مجھے اس تختے پر مت لٹاؤ۔ ۔ ۔ چھوڑ دو مجھے۔ ۔ چھوڑ دو۔ ۔ ۔ اماں ابا میری مدد کریں خدارا۔



"ہاں میں کچھ سکون محسوس کررہا ہوں۔ ۔ ۔ یہ لوگ سر جھکائے ایک صف میں کندھے سے کندھا ملائے کیا پڑھ رہے ہیں کہ میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں۔ میں بھی پڑھنا چاہتا ہوں۔ ۔میں بھی ان کے درمیان کھڑا ہونا چاہتا ہوں اور مغفرت کی دعا مانگنا چاہتا ہوں۔ ۔ ارے مجھے پہلے خیال کیوں نہ آیا۔ ۔ ۔کتنے لوگ تھے جن کے لئے میں نے اس طرح کھڑے ہوکر نماز پڑھی اور مغفرت کی دعا مانگی۔ انگلی پر گنا سکتا ہوں۔"



 
"مگر یہ سب یہاں کیوں جمع ہیں۔ ۔ ۔کس کے لئے یہ سب پڑھ رہے ہیں۔ ۔ اور بھائی کو سب گلے لگا کر کس کی تعزیت کر رہے ہیں۔ ۔ ۔بھائی کا تو میرے سوا اتنا قریبی خونی رشتہ دار تو کوئی نہیں جو بھائی اس قدر نڈھال ہے۔ اور میں کیا اس تختے نما لکڑی کے جنازے میں لیٹا دیکھ رہا ہوں۔ ۔ ۔آگے کیوں نہیں بڑھ رہا بھائی کو سنبھالنے۔ ۔ اور۔ ۔ اور اسلم بھی تو ہے۔ ۔ ۔اتنے لوگوں کے درمیان اکیلا سا۔ ۔ ۔جیسے کہہیں کھو گیا ہو۔ ۔ بھری دنیا میں اکیلا رہ گیا ہو۔ ۔ ۔ بیٹا۔ ۔ ۔اسلم میں یہاں ہوں۔ ۔ ۔ادھر آ بیٹے۔ ۔ ۔تیرا باپ یہاں بےبس لیٹا ہوا ہے۔ ۔ ۔ مجھے اٹھاؤ۔ ۔ مجھے اٹھاؤ۔"


 

"ارے لوگو! یہ تم سب مجھے جنازے میں ڈال کر کہاں لے جارہے ہو۔ ۔ ۔تو کیا میں!۔ ۔ ۔کیا میری ہی موت واقع ہوئی ہے۔ ۔ ۔ نہیں نہیں لوگو، یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ۔ ۔ابھی تو اسلم چھوٹا ہے۔ ۔ ابھی تو چھوٹی صرف سات سال کی ہے۔ ۔ ۔اور زینب۔ ۔ ۔زینب بچاری تو میرے بغیر مر جائے گی۔ ۔ ۔وہ اکیلی اتنی بڑی ذمہ داری کہاں نبھا پائے گی۔ ۔ ۔ ابھی تو اتنے کام باقی ہیں۔ ۔ ۔ اتنے قرض چکانے ہیں۔ ۔ ۔ فرائض باقی ہیں۔ ۔ ۔نمازیں قضا ہیں۔ ۔ ۔ آگے کی کچھ تیاری نہیں۔ ۔ ۔ روزی کمانے میں ہی فرصت نہ مل سکی۔ ۔ ۔دیکھو ابھی مت لے جاؤ۔ ۔ ۔ ابھی میں تیار نہیں ہوں اور زاد راہ کچھ بھی نہیں ہے میرے پاس۔ ۔ ۔ چھوڑ دو لوگو۔ ۔ ۔مجھے واپس لے چلو۔ ۔ ۔میں وعدہ کرتا ہوں۔ ۔ ۔قسم کھاتا ہوں۔ ۔ جو کام رہ گئے ہیں جلد پورے کر لوں گا۔ ایک ایک کو پکڑ کر معافی مانگ لوں گا۔ ۔ ۔ ارے کچھ نہیں تو اتنا تو موقع دو کہ زینب سے اجازت ہی لے لوں۔ ۔ ایک دو وصیتیں ہی کرلوں۔ ۔ ۔اپنے بچوں کو آخری بار سینے سے لگا لوں۔"


 

"نہیں نہیں! ابھی مجھے مٹی تلے مت دباؤ۔ ۔ ۔ دیکھو میرا دم گھٹ رہا ہے۔ ۔ یہاں بہت اندھیرا ہے۔ بہت وحشت ہے۔ ۔ ۔ دیکھو میں ہل بھی نہیں سکتا۔ ۔ ارے میں روشنیوں کا پجاری اس گھپ اندھیرے میں کیسے رہوں گا۔ ۔ ۔ یہ دہشت ناک تنہائی۔ ۔ ۔ ارے میں اس مٹی کے بوجھ تلے کچلا جارہا ہوں۔ ۔ یہ ۔ یہ دیواریں کیوں سکڑ رہی ہیں جو میرے وجود کو دونوں طرف سے کچلے دے رہی ہے۔ ۔ آہ ۔ ۔ یہ میرا پیٹ پھٹا۔ ۔ ۔یا الہی۔ ۔ ۔یا الہی۔ ۔ میری مدد کر۔ ۔ میں بےشک تیرا گناہ گار بندہ ہوں۔ ۔ ۔یا اللہ۔ ۔ ۔یا اللہ۔"


 

"اسلم کے ابّا۔ ۔ ۔ اسلم کے ابّا!۔ ۔ ۔" کندھا اب کے بار پھر زور سے ہلایا گیا۔ ۔ ۔ "آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔ ۔ ۔ایسے پتے کی طرح لرز رہے ہیں۔ ۔ ۔ڈاکٹر کو فون کروں کیا؟"


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭




Monday, May 30, 2011

امیر اور غریب



تخلیق کائنات کا ایک اہم جز قدرت نے یہ رکھا کہ ساری خلقت کو ایک دوسرے سے زنجیرکی طرح جوڑا اور ایک دوسرے کا محتاج بنایا۔ نباتات جمادات کے محتاج، حیوان نباتات کے اور انسان حیوانات کے۔ اسی طرح چاند سورج تارے سیارے کے سسٹم کو آپس میں کشش کے ذریعے جوڑ دیا اور ان کا تعلق اتنا مضبوط رکھا کہ ایک کی کمی دوسرے پر ناقابل تلافی حد تک اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اگر اس سسٹم میں ایک جز کو نقصان پہنچتا ہے توسارے سسٹم پر اس کا اثر ضرور پڑتا ہے۔



اگر غور کیا جائے تو یہ اجزائے خلقت ایک دوسرے کی بقا کے لئے لازم و ملزوم ہیں یعنی ایک دوسرے کی زندگی کی ذمہ داری لئے ہوئے ہے اور ایک دوسرے کو مکمل بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں کو بھی اللہ تعالی نے ایک دوسرے کی ذمہ داری سونپ کر آپس میں ایک زنجیر کی طرح جوڑا۔ ہر انسان دوسرے کا کسی نہ کسی طرح محتاج ہے۔ جیسے



مریض ڈاکٹر کا، جاہل عالم کا، شاگرد استاد کا، بچہ ماں کا، یہاں تک کہ ایک فیکٹری کا مالک بھی اپنے کارکنوں کا محتاج ہے۔ غرض مخلوق خدا ایک دوسرے پر اپنی روزی اور بقا کی وجہ سے محتاج ہے۔ یہ آپس میں اسی زنجیر کی طرح جڑے ہیں جیسے دیگر تخیلق خداوندی۔ اگر زنجیر کی ایک کڑی ٹوٹ جائے تو سارے اجزاء بکھر جائیں۔


اب یہاں ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ ہر تخلیق کو اس کا مرکزبھی دیا۔ جیسے چاند کا مرکز زمین، سیاروں کا مرکز سورج، ایک گھر کا مرکز ماں، ایک مدرسے کا مرکز اس کا استاد اور ایک معاشرے کا مرکز اس کے رؤسا اور معززین۔ یہ سب اپنے اطراف کی ذمہ داری لئے ہوئے ہیں۔


بس اسی طرح امیر اورغریب بھی اسی محورو مرکزسے جڑے ہیں۔ جس طرح سورج کا کام روشنی دینا ہے۔ اللہ تعالی نے سورج کو وسیلہ بنایا ہے زمین کی بقا کا۔ اسی طرح امیر کو وسیلہ بنایا ہے غریب کی بقا کا۔ انسان کو اشرف المخلوقات اس لئے بنایا کہ اسے ایک عدد جذبوں سے بھرا دل، سوچتا ہوا ذہن اور زندہ ضمیر بھی دیا۔ اب اگر اسی دل اور ذہن کے ساتھ اسے دولت کے شرف سے بھی نوازا تو اس کا مطلب ہے کہ اسے سورج کی سی ذمہ داری بھی دی کہ وہ اس زندہ ضمیر کے ساتھ خدا کی غریب مخلوق کی بقا کا وسیلہ بن جائے اور اس پر خدا باری تعالی نے جو ذمہ داری سونپی ہے وہ پوری کرے۔



پوچھنے والے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ واحدہ لاشریک تو کن فیکون بھی ہے تو کیوں غریب کو خود نہیں نوازتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی کو سورج بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ سب مخلوق کو اپنے اپنے حصے کی حرارت اور روشنی فراہم کردیتا۔ مگر اس نے سورج کو زندگی کی بقا کا وسیلہ بنایا۔ اس پر یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اپنی حرارت اور روشنی مخلوق کو بخشے۔ زندگی کی امین یہ روشنی اور حرارت ساری سورج کو ہی خدا نے بخش دی تاکہ وہ اس کو ہر طرف پہنچائے۔ اسی کی حرارت و روشنی کہیں زیادہ تو کہیں کم پڑھتی ہے اور سب اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اسی طرح دولتمندوں کو بھی اللہ تعالی نے غریبوں کی زندگی کا وسیلہ بنایا ہے۔ اسے زیادہ دولت اس لئے نہیں دی کہ وہ اس کا حق دار ہے بلکہ اس لئے دی کہ اب وہ غریبوں کی بقا کا امین ہے۔


اگر امیر اپنی دولت حقدار غریب کی مدد کے بجائے بے جا عیش وعشرت اور مال جمع کرنے میں لگا دے تو معاشرے کا توازن بگڑ جائے اسی طرح جس طرح سورج اپنی ساری توانائی اپنے تک ہی محدود رکھےاور اس توانائی کی کثرت سے اس کا حجم اتنا بڑھے کہ ایک دن پھٹ پڑے اور بقا کا امین ہی فنا کا باعث بن جائے۔


یہ عدم توازن ہم اپنے معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں جہاں غریب ایک ایک وقت کی روٹی کو ترستا ہے مگر جہاں کے امیر کے گھروں کے کوڑے دان رنگ برنگے پھینکے ہوئے کھانوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ جہاں بھوک وغربت سے تنگ آکر ایک غریب رکشہ ڈرائیور اپنے خاندان سمیت اجتماعی خودکشی کرلے مگر اسی سوسائٹی کے رؤساء ساری ساری رات شراب و کباب کی محفلیں سجائے بیٹھے ہوں۔ یہ مال و دولت جن کو چھپا کر یا اپنے تک محدود رکھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں یہ ان کی اپنی بقا کی ضمانت ہے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ وہ زہر ہے جو آہستہ آہستہ معاشرے کو تو نگل لے گا مگر آخر میں وہ خود بھی اس کا لقمہ بن جائیںگے۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


Sunday, May 29, 2011

بے زباں نہیں ہم



کہتے ہیں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں لیکن اگر کسی بھلے مانس سے پوچھا جائے تو کہیں گے کہ دیواروں کے کان نہیں بلکہ زبان ہوتی ہے وہ بولتی ہیں ان سے، جو سننا چاہے، وہ دکھاتی ہیں ان کو، جو دیکھنا چاہے۔ نہ صرف اپنی داستان سناتی ہیں بلکہ اپنے اطراف کی کہانیاں بھی کہتی ہیں۔

انسان کے جسم کی سب سے نمایاں چیز اس کا چہرہ ہوتا ہے اور اس چہرے کے اندر چھپی اس کی زبان۔ جب وہ زبان کھولتا ہے تب اس کی اصلیت سامنے آتی ہے۔ زبان ایسی چیز ہے جو چہرے کا اہم حصہ ہونے کے باوجود چہرے پر واضح موجود نہیں بلکہ لب و دہن کے پردے میں محفوظ ہے۔ اسی طرح دیواریں بھی ایک گلی، محلے اور شہر کا چہرہ ہوتی ہیں اور ان کی زبان سپیدی اور رنگ و روغن کے پردے کے پیچھے محفوظ۔ ہوتی ہے۔ مگر کبھی کبھار حالات کے ہاتھوں ان کو برہنہ بھی ہونا پڑتا ہے۔

ہر علاقے کی سب سے زیادہ آگہی اس کی دیواروں کو ہوتی ہے نہ صرف انہیں اپنے علاقے کی زبانوں پر عبور ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے علاقے اور اس کی سوچ کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ کہیں صاف ستھری سوچ تو کہیں گندی غلیظ باتیں۔ کہیں کسی کو راستہ دکھاتی ہیں تو کہیں راستے سے بھٹکاتی ہیں۔ کہیں شر اور فساد کے لئے ورغلاتی ہے تو کہیں اسلام اور انسانیت کا پیغام دیتی نظر آتی ہیں۔ کہیں کسی کے معاشی، ازدواجی اور تعلیمی مسئلوں کا حل بتاتی ہیں۔ تو کہیں اندھے اعتقاد والوں کو سنہرا مستقبل اور راتوں رات امیر بننے کے سپنے دکھاتی ہیں۔

ان دیواروں کے بھی اپنے اپنے دکھ ہوتے ہیں کبھی خاموشی حد سے سواء ہو جاتی ہے اور اندر کا حال چھپانا مشکل ہوجاتا ہے تب اپنا دکھ باہر لاتی ہیں۔ وہ دکھ اس کی شفاف سپیدی پر داغ لگاتے ہیں اسے آہستہ آہستہ غلیظ کرتے ہیں کبھی یہ داغ کسی راز کا پردہ چاک کرتے ہیں تو کبھی کسی کی اصلیت کو اجاگر کرتے ہیں کبھی ظلم کے خلاف صداء احتجاج بنتے ہیں تو کبھی مظلوم کے ساتھ یکجہتی کا دم بھرتے ہیں-

دیواروں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔ شرفاء کی دیواریں اپنی ساری غلاظتیں رنگوں کی گہری تہوں میں چھپائے صاف ستھری اور غرور و تمکنت سے اٹھی ہوتی ہیں ان کی زبانیں ان کے مالکوں کی طرح خاموش ہوتی ہیں۔ مگر ان کا ذرہ ذرہ زبان بن کر بول رہا ہوتا ہے کہ وہ ان سے زیادہ بااختیار دیواروں کی مطیع ہیں اور اگر زبان کھولی تو ڈھا دی جائے گی۔

غریبوں کی دیواریں بہت بہادر اور مضبوط ہوتی ہیں یہ ان کا بہت بڑا سہارا ہوتی ہیں۔ ان کی دیواریں سچ بولتی ہیں۔ اپنی غربت اور کم مائیگی پر شرمندہ نہیں ہوتیں بلکہ اپنی تمام تر بدصورتیوں کے ساتھ بھی سر اٹھا کر کھڑی ہوتی ہیں۔ وہ وہاں کے حاکموں کے منہ پر طمانچہ ہوتی ہیں اسی لئے وہاں کے شرفاء اورکرتا دھرتا اس راستے سے ہی اجتناب برتتے ہیں۔

مظلوم کو چونکہ انصاف میسر تو ایک طرف وہ انصاف کے لئے کھلے عام آواز بھی نہیں اٹھا سکتے ایسے میں یہ دیواریں ان کی آوازیں بن جاتی ہیں۔ کبھی ان دیواروں کے شور سے تنگ آکر اسے ڈھادیا جاتا ہے تو کبھی اس کے داغوں کو دھو کر نئے رنگوں سے سجا دیا جاتا ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ کبھی جبر ان پر حاوی نہ ہوسکا اور ایک دن انہیں دیواروں نے تختے الٹ دیئے۔

کچھ لوٹا دیواریں ہوتی ہیں۔ جو بضرورت وقت اپنا رنگ ڈھنگ بدلتی رہتی ہیں۔ یہ دیواریں حاکم وقت اور ان کی پارٹیوں کی غلامی میں ہوتی ہیں اور ان کی خیر اسی میں ہوتی ہے کہ جو صاحب اقتدار ہے اس کا دم بھرتی رہیں۔ دوسری طرف مخالفون کی بھی اپنی دیواریں ہوتی ہیں جو حکومتوں پر کیچڑ اچھالنے کے کام کرتی ہیں۔

سب سے زیادہ جمہوریت بھی انہیں دیواروں میں ہوتی ہے۔ انہیں آزادی فکر و خیالات فریڈم آف سپیچ بھی حاصل ہوتی ہے۔ وہ جھوٹ بولنے سے نہیں ڈرتی۔ وہ ہر قسم کے طبقوں اور مزاجوں کی عکاسی کرتی ہے۔ سب سے بڑی بات مستقل مزاج ہوتی ہیں۔ اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو کسی بھی ترقی پذیر ملک میں جمہوریت کی داغ بیل یہ ہی ڈال سکتی ہیں لہذا صحیح معنوں میں انہیں ہی ملک کی سربراہی ملنی چاہیئے۔

کچھ دیواریں کسی بدنصیب قیدی کے ساتھ بند، اس کی تنہائیوں میں غم گساری کرتی ہیں۔ کسی رازدار دوست کی طرح اتنے قریب کہ وہ اس کے سارے غم اور دکھ درد اپنے دامن میں سمو لیتی ہے۔ اس بدنصیب کی زندگی کے لمحہ بہ لمحہ بجھتے چراغ اور قید کی صعوبتوں کی وہ واحد گواہ ہوتی ہے۔ لیکن وہ خاموش گواہ پھر بھی نہیں ہوتیں اس کی پیشانی پر ایک ایک لمحے کی داستان رقم ہوتی ہے۔ پھرایک وقت آتا ہے جب قیدی زندگی کی جنگ ہار جاتا ہے اور قید خانے کا دروازہ کھلتا ہے۔ جب اس کی زبان برہنہ ہوتی ہے وہ چیخ چیخ کراپنے قیدی کی داستان سناتی ہے۔





عمر دراز مانگ کے لائے تھے چاردن

دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

دن زندگی کے ختم ہوئے، شام ہوگئی

پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کنج مزار میں