Friday, August 12, 2011

دائم کی محبت



نیلگوں وسعتوں میں نور کی دبیز تہہ جیسے طول و عرض کو احاطہ کئے ہوئے تھی۔ وہ دن اتنا مکمل اور روشن تھا کہ اس سے پہلے اس ارض و سماں نے ایسا مکمل اور روشن دن کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس دن کے آنے سے پہلے کتنے عرصے تک اس کی تیاریوں کا عمل ہورہا تھا۔ آج آخرکار وہ دن آگیا تھا۔


ان گنت نورانی پیکر اپنے پر سمیٹے، دم سادھے، با ادب، قطار در قطار کھڑے اس صدا کے منتظر تھے کہ جس کے بعد چار خطے سے اٹھائی کالی چکنی مٹی سے تراشے وجود پر اس وحدہ لاشریک کے نور کی ایک کرن پڑنا تھی۔ زمین پر اس بزرگ و برترہستی کا خلیفہ وجود میں آنا تھا اور اشرف المخلوقات کی تخلیق کا عمل مکمل ہونا تھا۔ وہ سب گوں ناگوں کی کیفیت میں تھے۔


"کیا زمین پر فتنہ نہیں پھیلایا جائے گا۔ کیا زمین ان کے خون سے رنگین نہ ہوگی۔ کیا یہ آپس میں لڑ نہ مریں گے۔" اس کے جواب میں عرش کی کرسی سجائے اس عزیز و حکیم کا فرمان قدرت ہوا "بےشک جو تمہارا رب جانتا ہے وہ تم نہیں جانتے"۔ وہ خاموش ہورہے کہ واقعی وہ تو وہی جانتے تھے جو بتایا گیا تھا اس سے نہ ایک کم نہ ایک زیادہ۔ "بے شک" انہوں نے یک زبان اقرار کیا۔


"کن" کے حکم کے ساتھ ہی جیسے "ہو جانے" کا عمل مکمل ہوا۔ نیلگوں وسعتوں کا طول و عرض سجدہ گاہ بن گیا۔ نہ صرف ساتوں آسمان پر بسی نورانی مخلوق بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ تک تعظیم میں جھک کر اس تخلیق کی عظمت اور بڑائی کا معترف ہوا۔


نور کی کرن نے چکنی مٹی کے پیکر میں جو روح ڈالی تو اس نے موندی آنکھیں پٹ سے کھول دیں۔ اس ادا پر قدرت مسکرا اٹھی۔ اور مسکراہٹ توعالم زر میں اس محبوب کے لبوں پر بھی تھی جسے قدرت نے ساری کائنات میں سب سے پہلے خلق کیا۔ پھر اس کے حب میں زمین و آسمان بچھائے۔ سمندروں اور دریاؤں کو رواں دواں کیا۔ آسمانوں کو وسعتیں عنایت کیں اور زمین کو کہیں بلندیاں تو کہیں گہرائیاں بخشیں۔ زمیں کو اپنے محبوب کے پیکر کے صدقے میں رنگ و خوشبو عطا کی۔ ہاں آج زمین کی تخلیق کا مقصد پورا ہواتھا۔ کیونکہ زمین پر خدا کے محبوب کی آمد کے انتظام کی پہلی کڑی مکمل ہوئی تھی۔


کن کا مالک یہ جانتا تھا کہ جس کو میں نے سب سے پہلے خلق کیا ہے، بنی نوع انسان کے لئے وہ کامل اخلاق کا پیکر اور ضابطہ حیات ہوگا۔ وہ ابراہیمؑ جیسے عالی مرتبت پیغمبر کی دعاؤں کا ثمر ہوگا۔


یہ ایک ایسا عبد ہوگا کہ جو اپنی ہستی کو اپنے معبود کی محبت میں مٹا دے گا۔ اس کا ایک ایک لفظ رضا الہی ہوگا۔ جو اس کے دین کو مکمل کرے گا۔ وہ دین جس کی ابتداء دنیا میں پہلے انسان کے ساتھ شروع ہوگی اور رہتی دنیا تک اس دین کو قائم رکھنے کے لئے یہ عبدؐ اپنے خاندان کے بڑوں چھوٹوں تک کی قربانیاں دے گا۔ اپنا سب کچھ لٹا دے گا۔ بدلے میں کچھ نہیں مانگے گا بس بارگاہ الہی میں شکر ہی ادا کرے گا۔


اس وحدہ لاشریک نے بھی احسان کا بدلہ احسان سے دیا ۔ رہتی دنیا تک اس کے دین پر چلنے والوں پر لازم کردیا، جہاں اللہ کا ذکر ہوگا وہاں اس کے محبوب کا ذکر لازم ہوگا ورنہ عبادت قبول نہ ہوگی۔ اس عبؐد نے اپنے سے وابسطہ ہر چیز، ہر رشتے کو اپنے معبود کی رضا کے لئے قربان کردیا۔ تو اس خالق نے ساری کی ساری آخرت اسے سونپ دی۔ روز جزاء میں شفاعت ان کے دامن میں ڈال دی۔ ان کا مقام اتنا بلند کیا کہ قیامت تک خود رب اور اس کے لاکھوں فرشتے دن رات ان پر درود بھیجتے رہیں گے۔


---------------------------

جب بھی ہم کلمہ پڑھتے ہیں اللہ تعالی کی لاشریکیت کے بعد اس کے محبوب اور آخری پیغمبؐرکی گواہی بھی دیتے ہیں۔ تبھی ہمارا کلمہ مکمل ہوتا ہے۔ تبھی ہمارا دین مکمل ہوتا ہے۔ یہ وہی محبت ہے جو ازل سے شروع ہوئی اور ابد تک رہے گی۔


یہ دنیا فانی ہے دائم تو اللہ کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ہاں ایک اور چیز کو فنا نہیں۔ وہ ہے روح۔ روح اللہ تعالی کے اپنے نور کی ایک کرن ہے جو اس نے بنی نو انسان کو عطا کر کے اسے تمام مخلوق میں معتبر کردیا ورنہ جانداروں کی کمی تو نہیں تھی زمین پر۔ اس روح میں اللہ تعالی نے ایک اور چیز اپنے اور اپنے حبیب کی محبت کے صدقے میں ودیعت کی ۔ وہ ہے جذبہ محبت۔ اب وہ ایک انسان کا دوسرے انسان سے کسی بھی صورت اور کسی بھی رشتہ میں ہو۔ سارے رشتے ہی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن خالق کی اپنے دین پر چلنے والوں پر کیا خوب عنایت ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو سچے دل سے چاہتے ہیں، ان کی راہ پر چلتے ہیں، ان کے دین کو قائم کرتے ہیں، ان کی محبت کو ساری دنیا کی محبت پر فوقیت دیتے ہیں۔ تو ان کے دلوں کو وہ بزرگ و برتر رب اپنی اور اپنے پیغمبرؐ کی محبت سے منور کردیتا ہے۔ یہ دو محبتیں جو ایک دوسرے کی لازم و ملزوم ہیں اس طرح سے ان کے دل اور روح میں سمو دیتا ہے کہ جس کے آگے ساری محبتیں سرنگوں ہوتی ہے۔ خدا اس محبت کومومن کی روح کی گہرائیوں میں رکھتا ہے ۔اس محبت کو دائمیت بخشتا ہے۔ ساری محبتیں تو مرتے ہی ختم ہوجائیں گی۔ مگر خدا اس محبت کو روح کی طرح لافانی کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس مومن کا ایمان اپنے معراج تک پہنچتا ہے۔ پھر اس کا نفس نفسں مطمئنہ بن جاتا ہے اور اسی نفس کے لئے دائمی فلاح اور نجات مقرر ہے۔


اور یہی بات تھی جو اس وقت فرشے نہ جانتے تھے۔ وہ وہی جانتے تھے جو بتایا گیا تھا۔ نہ ایک کم نہ ایک زیادہ۔ یہ بات صرف دو ہستیاں جانتی تھیں۔ ایک کن کا مالک اوردوسرا عالم زر میں خلق کیا گیا اس کا سب سے پہلا اور محبوب بندہ۔ ہمارے آخری پیغمبرحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭