Monday, May 30, 2011

امیر اور غریب



تخلیق کائنات کا ایک اہم جز قدرت نے یہ رکھا کہ ساری خلقت کو ایک دوسرے سے زنجیرکی طرح جوڑا اور ایک دوسرے کا محتاج بنایا۔ نباتات جمادات کے محتاج، حیوان نباتات کے اور انسان حیوانات کے۔ اسی طرح چاند سورج تارے سیارے کے سسٹم کو آپس میں کشش کے ذریعے جوڑ دیا اور ان کا تعلق اتنا مضبوط رکھا کہ ایک کی کمی دوسرے پر ناقابل تلافی حد تک اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اگر اس سسٹم میں ایک جز کو نقصان پہنچتا ہے توسارے سسٹم پر اس کا اثر ضرور پڑتا ہے۔



اگر غور کیا جائے تو یہ اجزائے خلقت ایک دوسرے کی بقا کے لئے لازم و ملزوم ہیں یعنی ایک دوسرے کی زندگی کی ذمہ داری لئے ہوئے ہے اور ایک دوسرے کو مکمل بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں کو بھی اللہ تعالی نے ایک دوسرے کی ذمہ داری سونپ کر آپس میں ایک زنجیر کی طرح جوڑا۔ ہر انسان دوسرے کا کسی نہ کسی طرح محتاج ہے۔ جیسے



مریض ڈاکٹر کا، جاہل عالم کا، شاگرد استاد کا، بچہ ماں کا، یہاں تک کہ ایک فیکٹری کا مالک بھی اپنے کارکنوں کا محتاج ہے۔ غرض مخلوق خدا ایک دوسرے پر اپنی روزی اور بقا کی وجہ سے محتاج ہے۔ یہ آپس میں اسی زنجیر کی طرح جڑے ہیں جیسے دیگر تخیلق خداوندی۔ اگر زنجیر کی ایک کڑی ٹوٹ جائے تو سارے اجزاء بکھر جائیں۔


اب یہاں ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ ہر تخلیق کو اس کا مرکزبھی دیا۔ جیسے چاند کا مرکز زمین، سیاروں کا مرکز سورج، ایک گھر کا مرکز ماں، ایک مدرسے کا مرکز اس کا استاد اور ایک معاشرے کا مرکز اس کے رؤسا اور معززین۔ یہ سب اپنے اطراف کی ذمہ داری لئے ہوئے ہیں۔


بس اسی طرح امیر اورغریب بھی اسی محورو مرکزسے جڑے ہیں۔ جس طرح سورج کا کام روشنی دینا ہے۔ اللہ تعالی نے سورج کو وسیلہ بنایا ہے زمین کی بقا کا۔ اسی طرح امیر کو وسیلہ بنایا ہے غریب کی بقا کا۔ انسان کو اشرف المخلوقات اس لئے بنایا کہ اسے ایک عدد جذبوں سے بھرا دل، سوچتا ہوا ذہن اور زندہ ضمیر بھی دیا۔ اب اگر اسی دل اور ذہن کے ساتھ اسے دولت کے شرف سے بھی نوازا تو اس کا مطلب ہے کہ اسے سورج کی سی ذمہ داری بھی دی کہ وہ اس زندہ ضمیر کے ساتھ خدا کی غریب مخلوق کی بقا کا وسیلہ بن جائے اور اس پر خدا باری تعالی نے جو ذمہ داری سونپی ہے وہ پوری کرے۔



پوچھنے والے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ واحدہ لاشریک تو کن فیکون بھی ہے تو کیوں غریب کو خود نہیں نوازتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی کو سورج بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ سب مخلوق کو اپنے اپنے حصے کی حرارت اور روشنی فراہم کردیتا۔ مگر اس نے سورج کو زندگی کی بقا کا وسیلہ بنایا۔ اس پر یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اپنی حرارت اور روشنی مخلوق کو بخشے۔ زندگی کی امین یہ روشنی اور حرارت ساری سورج کو ہی خدا نے بخش دی تاکہ وہ اس کو ہر طرف پہنچائے۔ اسی کی حرارت و روشنی کہیں زیادہ تو کہیں کم پڑھتی ہے اور سب اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اسی طرح دولتمندوں کو بھی اللہ تعالی نے غریبوں کی زندگی کا وسیلہ بنایا ہے۔ اسے زیادہ دولت اس لئے نہیں دی کہ وہ اس کا حق دار ہے بلکہ اس لئے دی کہ اب وہ غریبوں کی بقا کا امین ہے۔


اگر امیر اپنی دولت حقدار غریب کی مدد کے بجائے بے جا عیش وعشرت اور مال جمع کرنے میں لگا دے تو معاشرے کا توازن بگڑ جائے اسی طرح جس طرح سورج اپنی ساری توانائی اپنے تک ہی محدود رکھےاور اس توانائی کی کثرت سے اس کا حجم اتنا بڑھے کہ ایک دن پھٹ پڑے اور بقا کا امین ہی فنا کا باعث بن جائے۔


یہ عدم توازن ہم اپنے معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں جہاں غریب ایک ایک وقت کی روٹی کو ترستا ہے مگر جہاں کے امیر کے گھروں کے کوڑے دان رنگ برنگے پھینکے ہوئے کھانوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ جہاں بھوک وغربت سے تنگ آکر ایک غریب رکشہ ڈرائیور اپنے خاندان سمیت اجتماعی خودکشی کرلے مگر اسی سوسائٹی کے رؤساء ساری ساری رات شراب و کباب کی محفلیں سجائے بیٹھے ہوں۔ یہ مال و دولت جن کو چھپا کر یا اپنے تک محدود رکھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں یہ ان کی اپنی بقا کی ضمانت ہے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ وہ زہر ہے جو آہستہ آہستہ معاشرے کو تو نگل لے گا مگر آخر میں وہ خود بھی اس کا لقمہ بن جائیںگے۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


Sunday, May 29, 2011

بے زباں نہیں ہم



کہتے ہیں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں لیکن اگر کسی بھلے مانس سے پوچھا جائے تو کہیں گے کہ دیواروں کے کان نہیں بلکہ زبان ہوتی ہے وہ بولتی ہیں ان سے، جو سننا چاہے، وہ دکھاتی ہیں ان کو، جو دیکھنا چاہے۔ نہ صرف اپنی داستان سناتی ہیں بلکہ اپنے اطراف کی کہانیاں بھی کہتی ہیں۔

انسان کے جسم کی سب سے نمایاں چیز اس کا چہرہ ہوتا ہے اور اس چہرے کے اندر چھپی اس کی زبان۔ جب وہ زبان کھولتا ہے تب اس کی اصلیت سامنے آتی ہے۔ زبان ایسی چیز ہے جو چہرے کا اہم حصہ ہونے کے باوجود چہرے پر واضح موجود نہیں بلکہ لب و دہن کے پردے میں محفوظ ہے۔ اسی طرح دیواریں بھی ایک گلی، محلے اور شہر کا چہرہ ہوتی ہیں اور ان کی زبان سپیدی اور رنگ و روغن کے پردے کے پیچھے محفوظ۔ ہوتی ہے۔ مگر کبھی کبھار حالات کے ہاتھوں ان کو برہنہ بھی ہونا پڑتا ہے۔

ہر علاقے کی سب سے زیادہ آگہی اس کی دیواروں کو ہوتی ہے نہ صرف انہیں اپنے علاقے کی زبانوں پر عبور ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے علاقے اور اس کی سوچ کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ کہیں صاف ستھری سوچ تو کہیں گندی غلیظ باتیں۔ کہیں کسی کو راستہ دکھاتی ہیں تو کہیں راستے سے بھٹکاتی ہیں۔ کہیں شر اور فساد کے لئے ورغلاتی ہے تو کہیں اسلام اور انسانیت کا پیغام دیتی نظر آتی ہیں۔ کہیں کسی کے معاشی، ازدواجی اور تعلیمی مسئلوں کا حل بتاتی ہیں۔ تو کہیں اندھے اعتقاد والوں کو سنہرا مستقبل اور راتوں رات امیر بننے کے سپنے دکھاتی ہیں۔

ان دیواروں کے بھی اپنے اپنے دکھ ہوتے ہیں کبھی خاموشی حد سے سواء ہو جاتی ہے اور اندر کا حال چھپانا مشکل ہوجاتا ہے تب اپنا دکھ باہر لاتی ہیں۔ وہ دکھ اس کی شفاف سپیدی پر داغ لگاتے ہیں اسے آہستہ آہستہ غلیظ کرتے ہیں کبھی یہ داغ کسی راز کا پردہ چاک کرتے ہیں تو کبھی کسی کی اصلیت کو اجاگر کرتے ہیں کبھی ظلم کے خلاف صداء احتجاج بنتے ہیں تو کبھی مظلوم کے ساتھ یکجہتی کا دم بھرتے ہیں-

دیواروں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔ شرفاء کی دیواریں اپنی ساری غلاظتیں رنگوں کی گہری تہوں میں چھپائے صاف ستھری اور غرور و تمکنت سے اٹھی ہوتی ہیں ان کی زبانیں ان کے مالکوں کی طرح خاموش ہوتی ہیں۔ مگر ان کا ذرہ ذرہ زبان بن کر بول رہا ہوتا ہے کہ وہ ان سے زیادہ بااختیار دیواروں کی مطیع ہیں اور اگر زبان کھولی تو ڈھا دی جائے گی۔

غریبوں کی دیواریں بہت بہادر اور مضبوط ہوتی ہیں یہ ان کا بہت بڑا سہارا ہوتی ہیں۔ ان کی دیواریں سچ بولتی ہیں۔ اپنی غربت اور کم مائیگی پر شرمندہ نہیں ہوتیں بلکہ اپنی تمام تر بدصورتیوں کے ساتھ بھی سر اٹھا کر کھڑی ہوتی ہیں۔ وہ وہاں کے حاکموں کے منہ پر طمانچہ ہوتی ہیں اسی لئے وہاں کے شرفاء اورکرتا دھرتا اس راستے سے ہی اجتناب برتتے ہیں۔

مظلوم کو چونکہ انصاف میسر تو ایک طرف وہ انصاف کے لئے کھلے عام آواز بھی نہیں اٹھا سکتے ایسے میں یہ دیواریں ان کی آوازیں بن جاتی ہیں۔ کبھی ان دیواروں کے شور سے تنگ آکر اسے ڈھادیا جاتا ہے تو کبھی اس کے داغوں کو دھو کر نئے رنگوں سے سجا دیا جاتا ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ کبھی جبر ان پر حاوی نہ ہوسکا اور ایک دن انہیں دیواروں نے تختے الٹ دیئے۔

کچھ لوٹا دیواریں ہوتی ہیں۔ جو بضرورت وقت اپنا رنگ ڈھنگ بدلتی رہتی ہیں۔ یہ دیواریں حاکم وقت اور ان کی پارٹیوں کی غلامی میں ہوتی ہیں اور ان کی خیر اسی میں ہوتی ہے کہ جو صاحب اقتدار ہے اس کا دم بھرتی رہیں۔ دوسری طرف مخالفون کی بھی اپنی دیواریں ہوتی ہیں جو حکومتوں پر کیچڑ اچھالنے کے کام کرتی ہیں۔

سب سے زیادہ جمہوریت بھی انہیں دیواروں میں ہوتی ہے۔ انہیں آزادی فکر و خیالات فریڈم آف سپیچ بھی حاصل ہوتی ہے۔ وہ جھوٹ بولنے سے نہیں ڈرتی۔ وہ ہر قسم کے طبقوں اور مزاجوں کی عکاسی کرتی ہے۔ سب سے بڑی بات مستقل مزاج ہوتی ہیں۔ اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو کسی بھی ترقی پذیر ملک میں جمہوریت کی داغ بیل یہ ہی ڈال سکتی ہیں لہذا صحیح معنوں میں انہیں ہی ملک کی سربراہی ملنی چاہیئے۔

کچھ دیواریں کسی بدنصیب قیدی کے ساتھ بند، اس کی تنہائیوں میں غم گساری کرتی ہیں۔ کسی رازدار دوست کی طرح اتنے قریب کہ وہ اس کے سارے غم اور دکھ درد اپنے دامن میں سمو لیتی ہے۔ اس بدنصیب کی زندگی کے لمحہ بہ لمحہ بجھتے چراغ اور قید کی صعوبتوں کی وہ واحد گواہ ہوتی ہے۔ لیکن وہ خاموش گواہ پھر بھی نہیں ہوتیں اس کی پیشانی پر ایک ایک لمحے کی داستان رقم ہوتی ہے۔ پھرایک وقت آتا ہے جب قیدی زندگی کی جنگ ہار جاتا ہے اور قید خانے کا دروازہ کھلتا ہے۔ جب اس کی زبان برہنہ ہوتی ہے وہ چیخ چیخ کراپنے قیدی کی داستان سناتی ہے۔





عمر دراز مانگ کے لائے تھے چاردن

دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

دن زندگی کے ختم ہوئے، شام ہوگئی

پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کنج مزار میں