تخلیق کائنات کا ایک اہم جز قدرت نے یہ رکھا کہ ساری خلقت کو ایک دوسرے سے زنجیرکی طرح جوڑا اور ایک دوسرے کا محتاج بنایا۔ نباتات جمادات کے محتاج، حیوان نباتات کے اور انسان حیوانات کے۔ اسی طرح چاند سورج تارے سیارے کے سسٹم کو آپس میں کشش کے ذریعے جوڑ دیا اور ان کا تعلق اتنا مضبوط رکھا کہ ایک کی کمی دوسرے پر ناقابل تلافی حد تک اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اگر اس سسٹم میں ایک جز کو نقصان پہنچتا ہے توسارے سسٹم پر اس کا اثر ضرور پڑتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ اجزائے خلقت ایک دوسرے کی بقا کے لئے لازم و ملزوم ہیں یعنی ایک دوسرے کی زندگی کی ذمہ داری لئے ہوئے ہے اور ایک دوسرے کو مکمل بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں کو بھی اللہ تعالی نے ایک دوسرے کی ذمہ داری سونپ کر آپس میں ایک زنجیر کی طرح جوڑا۔ ہر انسان دوسرے کا کسی نہ کسی طرح محتاج ہے۔ جیسے
مریض ڈاکٹر کا، جاہل عالم کا، شاگرد استاد کا، بچہ ماں کا، یہاں تک کہ ایک فیکٹری کا مالک بھی اپنے کارکنوں کا محتاج ہے۔ غرض مخلوق خدا ایک دوسرے پر اپنی روزی اور بقا کی وجہ سے محتاج ہے۔ یہ آپس میں اسی زنجیر کی طرح جڑے ہیں جیسے دیگر تخیلق خداوندی۔ اگر زنجیر کی ایک کڑی ٹوٹ جائے تو سارے اجزاء بکھر جائیں۔
اب یہاں ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ ہر تخلیق کو اس کا مرکزبھی دیا۔ جیسے چاند کا مرکز زمین، سیاروں کا مرکز سورج، ایک گھر کا مرکز ماں، ایک مدرسے کا مرکز اس کا استاد اور ایک معاشرے کا مرکز اس کے رؤسا اور معززین۔ یہ سب اپنے اطراف کی ذمہ داری لئے ہوئے ہیں۔
بس اسی طرح امیر اورغریب بھی اسی محورو مرکزسے جڑے ہیں۔ جس طرح سورج کا کام روشنی دینا ہے۔ اللہ تعالی نے سورج کو وسیلہ بنایا ہے زمین کی بقا کا۔ اسی طرح امیر کو وسیلہ بنایا ہے غریب کی بقا کا۔ انسان کو اشرف المخلوقات اس لئے بنایا کہ اسے ایک عدد جذبوں سے بھرا دل، سوچتا ہوا ذہن اور زندہ ضمیر بھی دیا۔ اب اگر اسی دل اور ذہن کے ساتھ اسے دولت کے شرف سے بھی نوازا تو اس کا مطلب ہے کہ اسے سورج کی سی ذمہ داری بھی دی کہ وہ اس زندہ ضمیر کے ساتھ خدا کی غریب مخلوق کی بقا کا وسیلہ بن جائے اور اس پر خدا باری تعالی نے جو ذمہ داری سونپی ہے وہ پوری کرے۔
پوچھنے والے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ واحدہ لاشریک تو کن فیکون بھی ہے تو کیوں غریب کو خود نہیں نوازتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی کو سورج بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ سب مخلوق کو اپنے اپنے حصے کی حرارت اور روشنی فراہم کردیتا۔ مگر اس نے سورج کو زندگی کی بقا کا وسیلہ بنایا۔ اس پر یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اپنی حرارت اور روشنی مخلوق کو بخشے۔ زندگی کی امین یہ روشنی اور حرارت ساری سورج کو ہی خدا نے بخش دی تاکہ وہ اس کو ہر طرف پہنچائے۔ اسی کی حرارت و روشنی کہیں زیادہ تو کہیں کم پڑھتی ہے اور سب اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اسی طرح دولتمندوں کو بھی اللہ تعالی نے غریبوں کی زندگی کا وسیلہ بنایا ہے۔ اسے زیادہ دولت اس لئے نہیں دی کہ وہ اس کا حق دار ہے بلکہ اس لئے دی کہ اب وہ غریبوں کی بقا کا امین ہے۔
اگر امیر اپنی دولت حقدار غریب کی مدد کے بجائے بے جا عیش وعشرت اور مال جمع کرنے میں لگا دے تو معاشرے کا توازن بگڑ جائے اسی طرح جس طرح سورج اپنی ساری توانائی اپنے تک ہی محدود رکھےاور اس توانائی کی کثرت سے اس کا حجم اتنا بڑھے کہ ایک دن پھٹ پڑے اور بقا کا امین ہی فنا کا باعث بن جائے۔
یہ عدم توازن ہم اپنے معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں جہاں غریب ایک ایک وقت کی روٹی کو ترستا ہے مگر جہاں کے امیر کے گھروں کے کوڑے دان رنگ برنگے پھینکے ہوئے کھانوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ جہاں بھوک وغربت سے تنگ آکر ایک غریب رکشہ ڈرائیور اپنے خاندان سمیت اجتماعی خودکشی کرلے مگر اسی سوسائٹی کے رؤساء ساری ساری رات شراب و کباب کی محفلیں سجائے بیٹھے ہوں۔ یہ مال و دولت جن کو چھپا کر یا اپنے تک محدود رکھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں یہ ان کی اپنی بقا کی ضمانت ہے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ وہ زہر ہے جو آہستہ آہستہ معاشرے کو تو نگل لے گا مگر آخر میں وہ خود بھی اس کا لقمہ بن جائیںگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭