Wednesday, August 25, 2010

حاصلِ جستجو

بابا، شام کی تقریب کے کپڑے جوتے سب میں نے تیار کردیئے ہیں۔ ۔ اور بابا آپ بلیک تھری پیس ہی پہنیں گے۔ ۔۔ بس میں نے کہہ دیا ہے۔ اب میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گی۔ ۔ ۔اور وہی میں نے استری کر کے رکھا ہے۔۔ ۔آپ کو معلوم ہے آپ کتنے ہینڈسم لگتے ہیں اس سوٹ میں۔ "

کالج جانے سے پہلے زیب بابا کے کمرے میں آئی تھی۔ اور شام کی تقریب کی تیاری کے حوالے سے بابا سے مخاطب تھی۔ آج نہ صرف زیب بلکہ گھر کے سب افراد خوشی سے چہک رہے تھے۔ آج بہت پرانے دیکھے گئے خواب کی تعبیر کا دن تھا۔ کل اس نے بابا کی پروموشن کی خوشی میں گھر پر چھوٹی سی سرپرائز پارٹی کا بھی انتظام کر رکھا تھا۔

مگر بابا نہ جانے کیوں بجھے بجھے سے یقین اور بے یقینی کی حالت میں تھے ۔ زیب ان کی کیفیت اچھی طرح سمجھ سکتی تھی کہ بابا اس سے ہی سب سے زیادہ قریب تھے اور اپنی بیٹی سے اپنے دل کی ہر بات کہہ لیا کرتے تھے۔

"بابا کو شاید اب تک یقین نہیں آرہا کہ ان کا آخرکار پروموشن ہوگا اور آج وہ جی۔ ایم کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ اور باقی کے جو شکوک ہیں کہ شاید ان کے بجائے رمیض کا تقرر ہوگا تو یہ سب بےبنیاد تھے۔ آخر کو بابا سب سے زیادہ سینئر اور تجربہ کار ہیں کمپنی میں۔ ۔ " زیب یہ سب سوچتی ہوئی اپنے بیگ میں فائل رکھ رہی تھی۔

"اماں!۔ ۔ ۔ میں کالج جارہی ہوں۔ آج ایکسٹرا پیریڈ بھی ہے شاید تین بج جائیں۔ اور ہاں میں بابا کی شام کی ساری تیاری کرچکی ہوں۔"

کچن میں جاکر اماں سے مخاطب ہوئی۔ جہاں اماں بابا کے لئے ناشتہ بنا رہی تھیں۔

"جاؤ بیٹا اللہ کے حوالے۔ ۔ ۔اور سنو چھتری لیتی ہوئی جانا آج بارش کے آثار ہیں۔"



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



سو سے زائد کارکنان پر مشتمل اس کمپنی کے ہیڈ کوارٹر میں علی نواز چیف اکاونٹنٹ تھے۔ اور جی ایم کے بعد سب سے قابل احترام اور کمپنی کی مینیجمنٹ کی سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص تھے۔ رمیض کا پانچ سال پہلے اس کمپنی میں تقرر ہوا تھا اور ابھی پچھلے سال ہی وہ فائننس ڈپارٹمنٹ میں بطور اکاونٹنٹ اور مینیجمنٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر پروموٹ ہو کر آیا تھا۔ نہ صرف ذہین اور محنتی تھا بلکہ اپنی بہترین پی آر رکھنے کی خوبی کی وجہ سے جلد ہی کمپنی اسٹاف کا ہر دل عزیز ہوگیا تھا۔ وہ ایک نئی تازگی اور انرجی بن کر کمپنی میں شامل ہوا تھا۔ کام کے بیچ اپنی خوش مزاجی سے سب کو ہنساتا رہتا اور پریشر کے باوجود خوشگوار اور ہلکے پھلکے ماحول میں کام انجام پاتا۔ اس کے آنے سے سویا ڈپارٹمنٹ جیسے جاگ اٹھا تھا۔ وہ ناصرف کام میں پھرتیلا تھا بلکہ دوسرے ڈپارٹمنٹ والوں کے کام بھی کردیا کرتا تھا۔ اکثر وئر ہاوس اور اسٹاک ٹیکنگ ورکرز کے ساتھ بھی مغز ماری کرتے پایا جاتا۔ علی نواز نے اسے کبھی خالی بیٹھے نہ دیکھا تھا۔ ہر کام میں آگے آگے۔ ہر مسئلے کو چٹکیوں میں حل کردینا۔ پروجیکٹ کا کام انجام دینے کے لئے وہ کبھی ڈیڈ لائن کا انتظار نہ کرتا بلکہ فیڈ بیک مانگ مانگ کر علی نواز کے بھی ناک میں دم کردیتا۔ جانے کیسی توانائی تھی اس کے جسم میں کہ سارے ڈپارٹمنٹ میں محسوس ہوتی۔

رمیض کے آنے سے پہلے اکاونٹنگ کا سارا سسٹم سیدھے سادے سپریڈ شیٹ پر تھا ۔ اس نے آنے کے کچھ عرصے بعد ہی علی نواز کو سسٹم اپ گریڈ کرانے کا مشورہ دیا تھا۔ اس سلسلے میں علی نواز کو آفس ٹائم کے بعد ٹیلی اکاوئٹنگ اور اوریکل کی تربیت بھی دیتا تھا۔ علی نواز چونکہ سیدھے سادے لگے بندھے طریقے سے کام کے عادی تھے لہذا کمپیوٹر ان کے لئے ایک چیلنج تھا۔ مگر رمیض نے صرف تین مہینے میں انہیں اتنا تاک کر دیا تھا کہ کمپیوٹر کے متعلق سارے شکوک دور ہوگئے تھے۔ اس کے بدلے میں علی نواز بھی اسے اپنے تجربے کی روشنی میں بہت کچھ سکھاتے۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



زیب کالج سے باہر نکلی تو گھر گھر آئے بادل بجلی کی کڑک کے ساتھ برسنے لگے۔ تھکے تھکے چہروں پر ایک دم سے مسکراہٹ آگئی۔ رم جھم کرتی بارش کے ساتھ خوشگوار ٹھنڈی ہوا بھی چلنے لگی۔ کتنا اچھا لگتا ہے نا یہ سب دیکھنا جب گرمی حبس اور بجلی کی قلت سے تنگ اور تھکے ہارے لوگ بارش جیسی نعمت سے سیراب ہوتے ہیں۔

باوجود چھتری کے بس اسٹاپ تک پہنچتے پہنچتے بھی وہ اچھی خاصی بھیگ چکی تھی۔ اس نے اپنا سفید بڑا سا دوپٹہ اپنے گرد اچھی طرح لپیٹا اور کچھ اور لڑکیوں کے ساتھ بس کا انتظار کرنے لگی۔ کافی وقت گزر گیا مگر اس کے اسٹاپ کی بس نہ آئی۔ ایک ایک کرکے دوسری لڑکیاں اپنی بسوں پر سوار ہوئیں۔ دو لڑکیاں اسی کے اسٹاپ کی اور کچھ اور لوگ بھی کھڑے بس کے لئے پریشان ہورہے تھے۔ اس نے اپنی گھڑی میں پھر سے دیکھا۔ ایک گھنٹہ اوپر ہوچکا تھا۔ پھر وہ یہ سوچ کر پرسکون ہوتی چلی گئی کہ دیر سے سہی بس آئے گی ضرور اور اسٹاپ پہ صرف وہ ہی تو نہیں تھی اور بھی لوگ گھروں کو جانے کے لئے بےچین تھے۔

پندرہ منٹ اور گزرے تھے کہ سامنے سے بلو گاڑی آتی نظر آئی۔ اس گاڑی کو وہ اچھی طرح جانتی تھی یہ بابا کے آفس کی گاڑی تھی۔ جب بابا کو آفس میں کسی کام کے باعث دیر ہوجاتی تو مینیجر آفس کی گاڑی میں بابا کو گھر بھجوادیتے۔ گاڑی قریب آکر رکی۔ پچھلا دروازہ کھول کر رمیض باہر نکل کر بھاگتا ہوا اس کی طرف آیا۔

" السلام علیکم! جائیں انکل گاڑی میں آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ بھی گھر جارہے ہیں ۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے تو اسے بھی لے لیں۔"

وہ بھیگتا ہوا جلدی جلدی اس سے مخاطب تھا۔

زیب کی نظر گاڑی پر اٹھی تو آگے کی سیٹ سے بابا باہر جھانک کر اسے بلا رہے تھے۔

" اور آپ?۔ ۔" وہ بے اختیار آدھا جملہ بول کر شرمندہ ہوئی۔

رمیض کے لبوں پر ایک لحظے کو مسکراہٹ ابھری۔

"میں بس کا انتظار کرلوں گا۔ ۔ "

زیب نے اپنے اسٹاپ کی دونوں لڑکیوں کو لفٹ کی آفر کی جو انہوں نے غیبی امداد سمجھ کر قبول کرلی۔

"شکریہ۔ ۔ ۔اللہ حافظ!۔ ۔ " جاتے ہوئے زیب مڑ کر بولی۔

"سنیں!۔ ۔ ۔ اتنی مہربانی کے بدلے چھتری تو دیتی جائیں۔"

وہ شرارت سے مسکرایا۔

"اوہ۔ ۔ سوری!" پھر سے شرمندہ ہوکر چھتری آگے بڑھا دی۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



رمیض کو دیکھ کر کبھی کبھار علی نواز کو بیٹا نہ ہونے کا دکھ پھر ستانے لگتا۔ گو اللہ تعالی نے ایک کے بعد ایک دو بیٹیوں سے نوازا تھا مگر اس کے بعد آسیہ بیگم پھر ماں نہ بن سکیں اور علی نواز نے بھی "جو رب کی رضا "کہہ کر شکر ادا کرلیا۔

کبھی کام کے بعد آفس کی گاڑی سے دونوں گھر جاتے تو راستے میں رمیض کا گھر پہلے آتا اور وہ بصد اصرار علی نواز کو گھر لے جاتا۔ اس کے گھر کا ماحول بھی سادگی لئے ہوئے تھا۔ رمیض کی دو بہنیں تھیں ایک پڑھ رہی تھی اور دوسری مقامی اسکول میں ٹیچر تھی۔ جس کی منگنی ہو چکی تھی۔ ماں بیوہ تھی اور سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے تھی۔ علی نواز رمیض کی ماں کی اپنے بیٹے کی بہترین تربیت کے لئے انہیں دل ہی دل میں بہت سراہتے۔ پانچ سال میں اسے دو بار پروموشن بھی مل چکی تھی۔ اتنی کم مدت میں یہ اس کے لئے بہت بڑی کامیابی تھی۔ جب تین مہینے کی ٹریننگ کے لئے اسے جاپان بھیجا گیا تو سب ہی نے اسے مبارکباد دی۔

علی نواز جانتے تھے کہ جی۔ایم کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ہی اگلا جی ایم منتخب کیا جائے گا۔ پچھلے پچیس سال سے وہ اس کمپنی سے منسلک تھے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ انہوں نے یہاں کام کرتے ہوئے گزارا تھا۔

جی ایم صاحب نے خود بھی کئی بار اشارے سے یہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ وہ ان کی کارکردگی اور کمپنی سے وفاداری کے صلے میں ان کی رپورٹ آگے پیش کریں گے اور اگلے جی ایم کے لئے انہیں کا نام تجویز کریں گے۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



ریٹائرمنٹ کی تقریب ایک بڑے ہوٹل کے پرائیویٹ کانفرنس روم میں منعقد کی گئی تھی جس میں نئے جی ایم کی تقرری اور سابق جی ایم کی خدمات کے عوض ریٹائرمنٹ پکیج اور بونسس کے اعلان کے علاوہ ان کے اعزاز میں عشائیہ کا بھی انتظام تھا۔ کمپنی کے چیف اور ایم ڈی کے ساتھ سابق جی ایم بھی خوشگوار گفتگو میں محو تھے۔ علی نواز جانے کس دل سے وہاں بیٹھے تھے۔ ان کی خاموشی کو سب نے ہی محسوس کیا تھا۔ ایک ہی سال میں ان کی تو کایا ہی پلٹ گئی تھی۔ کتنا یقین تھا کہ جس کمپنی کو انہوں نے اپنی زندگی کے پچیس سال دیئے تھے۔ جو حکومتی اور اقتصادی بحران کے باوجود آہستہ ہی سہی مگر ترقی اور کامیابی کی طرف گامزن تھی۔ یہ ایسی بے ثبات کمپنیوں میں سے نہیں تھی جو چار دن ہوئے متعارف ہوئی ہو اور راتوں رات کامیابی کی آخری سیڑھی تک پہنچ جائے۔ بلکہ اسے علی نواز جیسے کارکنان نے اپنے زیرک مشاہدے، تجربے اور صحیح فیصلوں کی قوت سے بقا بخشی تھی۔ جس کمپنی کا انہیں یقین تھا کہ پچیس سال کی محنت کے عوض انہیں اس عہدے کا سو فیصد مستحق مانے گی۔ ۔ ۔ ۔ سر درد سے پھٹ رہا تھا۔ نظر تھی کہ دھندلائے جارہی تھی۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



جی۔ ایم کی پوسٹ کے لئے جب شارٹ لسٹ مرتب کی گئی تھی اس میں سرفہرست علی نواز کے بعد دوسرا نام رمیض کا دیکھ کر وہ متعجب ہوئے تھے۔ انہوں نے جی۔ایم سے رمیض کے کم تجربے کار ہونے کا اظہار بھی کیا تھا۔ لیکن جواب میں جی۔ ایم صاحب بولے کہ یہ ایم۔ ڈی صاحب کا مطالبہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب پرانی طریقے سے مینیجمنٹ کے زمانے گئے۔ کمپنی کو نئے خون کی ضرورت ہے ایسا شخص جس میں رہنمائی کی خصوصیت نیچرل ہو۔ جو رسک لینے سے گھبرانے کے بجائے اسے چیلنج سمجھ کر قبول کرے اور جو اتنا ہوشیار ہو کہ اس رسک کو فائدے میں بدلنے کے سارے گر جانتا ہو۔ جو اپنے حریف سے ہمیشہ ایک قدم آگے رہتا ہو اور مارکیٹ اپ اور ڈاؤن اس کی انگلیوں پر ہو۔ جو صرف مینیجمنٹ کی کرسی سنبھال کر نہ بیٹھا ہو بلکہ خود فیلڈ اور سائٹ پر جاکر کام کی نگرانی کرتا ہو۔ یہ نیا زمانہ کٹ تھروٹ کورپوریٹ کی دنیا کا ہے۔ یہاں کچوے کی چال چلنے والی ہمارے جیسی کمپنی کو بڑی کمپنیاں نگل کر ہضم کر جاتی ہیں۔

علی نواز خاموش رہے ہوسکتا ہے یہی کمپنی کے حق میں بہتر ہو یا ہوسکتا ہے کہ وہ بوڑھے ہوگئے ہوں۔ کچھ زیادہ فرق تو نہیں تھا ان کی اور جی۔ایم صاحب کی عمروں میں۔ اگر وہ منتخب ہو بھی جاتے ہیں تو کتنے سال اس عہدے پر رہ سکیں گے؟ چند ہی سالوں میں ریٹائرمنٹ کا وقت آجائے گا۔ اتنے سال بے سبب خواب دیکھتے ہی گزر گئے۔



۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔



"وہ کیا تھا؟ اس میں ایسی کیا خوبی تھی کہ وہ آتے ہی چھا گیا!" علی نواز بستر پر نڈھال پڑے مسلسل سوچے جارہے تھے۔

اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو وہ خود بھی رمیض کی خوبیوں کے معترف تھے۔ وہ ماتحت تھا ان کا اور اس نے ایک افسر اور ماتحت کے مابین فاصلے اور احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھا تھا۔ لیکن نہ جانے کب سے اس نے وہ سارے کام کرنا شروع کردیئے تھے جو اس کی ڈیوٹی میں بھی نہیں آتے تھے۔ جو کچھ بھی ہوا بہرحال پانی سر سے گزر چکا تھا۔ وہ پچیس سال تک وہیں کے وہیں تھے اور رمیض پانچ سال میں اسسٹنٹ اکاونٹنٹ سے ہوتا ہوا جی۔ ایم کے عہدے تک پہنچ چکا تھا۔ ایک لمحے کو علی نواز کے دل میں رمیض کے لئے شدید نفرت پیدا ہوئی۔ وہ بھی انہیں لوگوں میں سے تھا جو کورپوریٹ سیڑھی کو پھلانگنے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ موقع پرست، لالچی۔ ۔ ۔ خودغرض۔



- - - - - - - - - - - - - - - - -



اگلی شام رمیض شرمندہ سا اپنی ماں کے ساتھ علی نواز کے گھر آیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب رمیض خود سے علی نواز کے گھر آیا تھا۔ دروازہ زیب نے ہی کھولا۔ رمیض نے سلام کر کے اپنی ماں کا تعارف کروایا۔ زیب انہیں لے کر ڈرائنگ روم میں آگئی۔ اور رمیض کو بابا کے کمرے کی طرف لے گئی۔

وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ ناراض ہے اور مہمان کو خوش آمدید کرنے والی کوئی گرمجوشی اس کی آنکھوں میں نہیں بلکہ ایک سرد سی خاموشی ہے۔

"آپ سے گزارش ہے کہ بابا نہ صرف بیمار ہیں بلکہ ڈسٹرب بھی ہیں۔ اس لئے پلیز آپ ایسی کوئی بات۔ ۔ ۔ " زیب نے بے اعتنائی سے کہہ دیا۔

"آپ فکر نہ کریں میں صرف خیریت معلوم کرنے آیا ہوں۔ اور تھوڑی دیر میں ہی چلا جاؤں گا۔" رمیض بات کاٹتے ہوئے بولا اور کمرے میں داخل ہوگیا۔

"السلام علیکم انکل!" رمیض دروازے سے ہی بولا۔

علی نواز اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر حیرت سے اٹھ بیٹھے۔

"و علیکم السلام بیٹا، تم کب آئے!"

"ارے انکل لیٹے رہیں۔ ۔ ۔آپ کی طبیعت اب کیسی ہے؟ ۔ ۔ ۔ کل تقریب میں آپ کی اچانک طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے سب پریشان سے ہوگئے تھے۔"

"بس بیٹا، چکر سا آگیا تھا۔ عادت جو نہیں ہے ایسی تقریبوں کی اور عمر کا تقاضہ بھی۔" علی نواز تھکے ہوئے سے لہجے میں بولے۔

کچھ لمحے خاموشی میں کٹے پھر وہ بولے۔

"تمہیں جی۔ایم کا عہدہ مبارک ہو رمیض۔"

وہ کچھ دیر تک تو کوئی جواب نہ دے پایا۔ پھر ہچکچاتے ہوئے گویا ہوا۔

" میں آپ سے شرمندہ ہوں انکل۔ میں نے کوئی چیٹنگ یا پاور گیم نہیں کھیلی۔ بخدا میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ مجھے سلیکٹ کریں گے جب کہ آپ مجھ سے بہت سینئر ہیں اور آپ کے سامنے تو میرا تجربہ کچھ بھی نہیں۔ یہ حق تو آپ کا تھا انکل۔ ۔"

وہ واقعی شرمندہ تھا۔

" بیٹا، کمپنی کے مالکوں نے کچھ تو خوبی دیکھی ہوگی تم میں جو میرے بجائے تمہارا انتخاب کیا۔"

"نہیں انکل۔ ۔ میں نے ایم۔ ڈی صاحب سے وقت مانگا ہے۔ انہیں اچانک مجھ سے پوچھے بغیر یہ فیصلہ نہیں سنانا چاہیئے تھا۔ ۔ ۔ ۔ میں شاید ریزائن کردوں۔ ۔ ۔ کیونکہ میں آپ کے پچیس سال کی محنت کی بنیاد پر دیکھے گئے خواب کی راکھ پر اپنا محل تعمیر نہیں کرسکتا۔"

علی نواز نے چونک کر رمیض کی آنکھوں میں دیکھا جو شفاف آئینوں کی طرح چمک رہی تھیں جس میں سچائی اور خلوص رقم تھا۔

شک کے سارے بادل چھٹ گئے۔ کتنا غلط سمجھتے تھے وہ اسے۔ لیکن وہ تو کچھ اور ہی نکلا۔ شدّت جذبات سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

"کاش! تم میرے بیٹے ہوتے رمیض۔ ۔ ۔ ۔ خدا تمہارے مرحوم باپ کو تمہاری نیکیوں کا اجر دے۔"

رمیض کو اپنے کندھے سے ناکردہ جرم کا بوجھ اترتا محسوس ہوا۔ وہ ایک دم سے پرسکون ہوگیا۔ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد جھجھکتے ہوئے بولا۔

"انکل آپ مجھے اپنا بیٹا بنا سکتے ہیں۔ ۔ ۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو؟ میری امی اسی سلسلے میں یہاں آئی ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔&&&۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔