Friday, September 3, 2010

یہ کیڑیاں اتنی بیوقوف کیوں ہوتی ہیں

آج صبح نماز کے بعد میں چائے بنا رہی تھی جب میری نظر ایک بار پھر کچن کی کھڑکی کے کونے پر کیڑیوں کی ایک جماعت پر پڑی۔ یہ کیڑیاں فوج کی کسی بٹیلین طرح کھڑکی کے کونے سے نکل کرآگے بڑھتی ہوئی کچن سنک کے نیچے کہیں گم ہورہی تھی۔ یہ سین میرے لئے کوئی نیا نہیں تھا۔ جب سے بارش کا موسم شروع ہوا ہے ان کیڑیوں نے بھی اپنے لئے محفوظ پناہگاہ اور بارش سے بچنے کا انتطام کرلیا ہے۔



روزانہ یہ ننھی مخلوق بڑے منظم طریقے سے ایک ہی لائن میں ایک ہی سپیڈ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جارہی ہوتی ہیں۔ مجال ہے جو کوئی لائن چھوڑ کر یہاں سے وہاں ہوجائے ایسا لگتا ہے کہ ان میں کوئی سوچی سمجھی انڈرسٹینڈنگ ہے کہ اس طریقے سے، ایسے ہی، اس جگہ سے اس جگہ اور ایک ہی سمت پر سفر کرنا ہے۔ اگر کبھی ایسا ہو جائے کے مخالف سمت سے ان کی چند سکھیاں آرہی ہوں تو وہ بھی باقاعدہ لائن کی شکل میں آتی ہیں اور ہر ایک سے باقاعدہ مصافحہ اور حال احوال دریافت ہوتا ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے اور کسی بھی دیکھنے والے کو زیادہ اعتراض نہیں ہوگا کہ اس کے گھر میں بغیر کرائے کے کئی ہزار کیڑیاں بھی رہائش پذیر ہیں۔ مگر جب کبھی کبھاریہ جماعت مل کر اپنے سے کئی گنا بڑے کاکروچ کو اٹھائے لے جانے میں مشغول ہوتی ہیں، جسے دیکھ کر احرام مصر بنانے والے وہ مزدور یاد آجاتے ہیں جو کئی سو کلو وزنی پتھر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے اور کس طرح کی محنت و مشقت کرتے تھے۔


اور بات جب یہاں تک پہنچ جائے کہ تھوڑی دیر کو کوئی پلیٹ وغیرہ سنک میں بغیر دھلے رہ جائے اور وہاں بھی یہ خواتین غلبہ کئے بیٹھی ہوں تو بڑی کوفت ہوتی ہے۔ ویسے میں انتہا پسند ہوں نا ایکسٹریمسٹ مگر مجھے بھی تو یہ بتانا ہوتا ہے کہ بھئی گھر کے مالک آپ نہیں، میں ہوں اور پاپولیشن کنٹرول بھی کوئی چیز ہوتی ہے لہذا مجبوراً اسپرے اٹھا کر کھڑکی کے کونے سے لے کر کچن کی سنک تک ایک فوراہ ان پر برسانا پڑتا ہے۔ اسپرے کے بعد وہ وہیں جم جاتی ہیں اور پیچھے آنے والیاں بھاگ دوڑ کر یہاں وہاں پناہ لیتی ہیں۔ اس اثناء میں میری چائے ابلنا شروع ہوتی ہے اور میں اس طرف متوجہ ہوجاتی ہوں۔ پھر دوسرے دن وہی تماشہ۔


اب یہاں تعجب کی بات یہ نہیں کہ کئی سو مارگرانے کے بعد دوسرے ہی دن اسی جگہ اسی طرح لائن بنائے ہوئے پہلے سے بھی بڑی تعداد میں وہ پھر موجود ہوتی ہیں بلکہ تعجب ان کی determination پر ہوتا ہے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت یہاں حملہ ہوگا اور ہم میں کئی سو کو ڈھیر ہوجانا ہے پھر بھی اس بات کی پرواہ کئے بغیر موجود ہوتی ہیں، اور اپنا ٹھکانہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتیں۔


کیا یہ اتنی بیوقوف ہوتی ہیں کہ خطرہ جان کر بھی اس میں کود جائیں یا اس میں کوئی مسلک چھپا ہے? جبکہ عموماًدوسرے کیڑے اور جانور اس جگہ سے بھاگتے ہیں جہاں خطرہ ہوتا ہے۔


کیا ان کیڑیوں کے اس فعل میں ہمارے لئے ایک سبق پوشیدہ ہے?