Tuesday, June 29, 2010

اس شہر میں



نومبر کی آمد کے ساتھ ہی خنکی میں اضافہ ہوگیا تھا مگر انجلا کی پیشانی پر پسینے کے قطرے اس کے ناتواں جسم سے بے رحمانہ محنت کا ثبوت تھے۔ اس کی سیاہ داغدار قمیض جو کبھی کسی اور رنگ کی ہوا کرتی تھی کوئلے کی کان میں اپنی قوت و طاقت سے دوگناہ بڑھ کر وزن اٹھاتے، گھسیٹتے ایسی کالی ہوئی تھی جیسے کوئلے سے رگڑ رگڑ کر دھو دی گئی ہو۔

اس کے ننھے ننھے کھلونوں کی نرمی سے ناواقف ہاتھ کسی مزدور کے ہاتھ کی طرح کھردرے اور سخت ہوچکے تھے۔ پتلا چہرہ جس پر کبھی نرم اور پھولے پھولے سے گال تھے جس پر بابا ہر صبح ایک پیاری سی کس دیا کرتے تھے کب کے اندر کو دھنس چکے تھے۔ بس دو بڑی بڑی آنکھیں جس میں جامد خاموشی اور جو ہر احساس سے بےنیاز تھیں اس کے سیاہ چہرے کو روشن کیئے ہوئے تھیں۔

پچھلے سال بابا کی اندوہناک موت کے بعد انجلا کی صبح و شام اس نیم اندھیری اور گہری کان میں گزرتی تھی۔ جہاں کا اندھیرا، خاموشی اور تنہائی ہی اس کے ساتھی تھے۔ اب تو وہ اتنی عادی ہوچکی تھی کہ اپنا آپ اندھیرے کا حصہ ہی محسوس ہوتا ۔ اس کے کھردرے ہاتھوں کی لکیروں میں کوئلے کی سونٹ اس طرح سے جم گئی تھی جیسے ہاتھوں کی لکیریں ہی کالی بنائی گئی ہوں۔ کبھی صبح اگر پانی میسر ہوتا وہ اپنا منہ رگڑ رگڑ کر دھوتی لیکن ٹوٹے آئینے میں جب اپنا چہرہ دیکھتی تو ایسا لگتا کہ کوئلے کی یہ راکھ صرف اس کے چہرے پر ہی نہیں اس کی روح پر بھی جم گئی ہے۔ کہیں سے بھی وہ پہلے والی انجلا نظر نہیں آتی تھی۔ "تم میری زندگی کا اجالا ہو۔" اسے بابا کے الفاظ یاد آتے۔ اب تو صرف اس کی زندگی میں اندھیرا ہی اندھیرا رہ گیا تھا۔



****************************

سرشام جب انجلا اپنا کام ختم کر کے گھر کا راستہ لیتی تو دن کی مدھم پڑتی روشنی اور شام کے گہرے ہوتے سائے میں اکثر ایسا محسوس کرتی جیسے کوئی ان دیکھی انجانی ہستی ہے جو اس کے ساتھ ساتھ ہے، جو اس کے دکھے دل پر مرہم رکھتی ہے، اسے حوصلہ دیتی ہوئی لگتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا وہ اسے جانتی ہے، ہمیشہ سے جانتی تھی، کوئلوں کے بیچ، خاردار راستےپر چلتے، اماں کے نیم جان جسم کو سہارہ دیتے، بھوک میں، ہر جگہ وہ ہستی ساتھ ساتھ ہے، وہ اکیلی نہیں ہے صرف اس کی موجودگی کا احساس ہی اس کا حوصلہ بڑھاتا تھا۔ آج بھی جیسے ہی وہ نیم اندھیری کان کے داخلی راہ سے باہر آئی تو جب تک اس کی آنکھیں روشنی کی عادی ہوتیں اس درمیان اسے صاف محسوس ہوا کہ اس کے آگے کوئی کھڑا ہے بالکل اسی طرح جس طرح بابا کھڑے ہوتے تھے۔ صرف ایک لمحے کو جھلک نظر آئی اور پھر اوجھل ہوگئی۔

وہ آہستہ اور مرے قدموں سے گھر کی جانب روانہ ہوئی۔ سارے دن کی انتھک محنت اور بھوک کی شدت کو دباتے وہ اتنی نڈھال ہوچکی تھی وہ خود اندازہ نہیں کرسک رہی تھی کہ وہ کس طاقت کے بل پر نہ صرف کھڑی ہے بلکہ چل بھی رہی ہے۔ کتنے دن ہوئے آج جب اس نے پیٹ بھر کھانا کھایا ہوگا۔ یا بالٹی بھر پانی سے نہایا ہوگا۔ اس نے اپنی بند مٹھی کو کھول کر دیکھا۔ تین گلے ہوئے کالے پڑتے نوٹ اس کی سارے دن کی کمائی تھے۔ اس کا گاؤں قریب آچکا تھا۔ وہ بمشکل اپنے پھٹے جوتوں کو گھسیٹتے بوڑھے فلپ کی دو بنچوں پر مشتمل دکان کی طرف چل دی۔



*********************************

فلپ انجی کو دور سے آتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ یہ بارہ سالہ بچی اتنی چھوٹی سی عمر میں بدترین حالات کا شکار تھی۔ فلپ وہ شخص تھا جس کا اس خشک سالی میں خود کا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا اکثر رات کو گاؤں کے دوسرے مکینوں کی طرح بھوکا سوجاتا اور اگر کبھی میسر بھی ہوتا تو انجی اور اسی طرح کے یتیم بچوں میں بانٹ دیتا۔ بوڑھا آدمی تھا۔ برسوں پہلے بیوی تیسری زچگی میں بروقت خون نا ملنے کی وجہ سے مرگئی تھی۔ ایک لڑکا کچھ بڑا ہوتے ہی اپنے دور پار کے رشتہ داروں کے ساتھ بورڈر پار کروا دیا تھا۔ لڑکی کو بھی دس سال کا ہوتے ہی چھپ چھپاتے شہر لے گیا تھا وہاں چرچ کے حوالے کردیا تھا۔ وہاں کم از کم وہ محفوظ تو تھی۔ حالانکہ خبر سنی گئی تھی کہ چرچ پر بھی حملہ ہوا تھا۔ مگر اس کا دل کہتا اس کی بیٹی زندہ ہے۔ اس کی کلارا محفوظ ہے۔

سرکاری فوجوں اور مخالفی گروپ فورسز کے بیچ یہ بے گناہ لوگ چکی کے پاٹوں کی طرح پس رہے تھے۔ اس پر سے خشک سالی، نا پانی میسر تھا نہ اناج۔ کیا دنیا ہمیں بھول گئی ہے? کیا جیسس اور میری ہمیں بھول گئے ہیں? فلپ اکثر سوچتا۔

گاؤں میں چند ہی جوان رہ گئے تھے وہ بھی لولے لنگڑے جو ناہی سرکاری فوج اور نا ہی مخالفتی فوج کے کسی کام کے تھے۔ اپنے زخموں اور اپنی ناکارہ و بے بس زندگیوں کو لئے دن گن رہے تھے۔ کچھ ننگ دھڑنگ بچے اکثر کوڑھے کے ڈھیر میں کھانے کی چیز تلاش کرتے ہوئے یا پھر بوڑھے اور بیمار۔

بارہ سال کے اوپر کے سارے لڑکے لڑکیاں اور جوان مرد وعورت اغوا کئے جا چکے تھے۔ لڑکوں اور مردوں کو فوجی ٹریننگ اور عورتوں کو ہوس کا نشانہ بنانے۔ جن کی وجہ سے ہی ان وحشیوں کے دل بندوقوں اور رائفلوں میں لگے ہوئے تھے۔ سرکاری فوج نے جب دیکھا کہ گاؤں کے جوان مخالفی فوجوں میں ہیں تو منادی کروا دی اگر کسی نے ان لوگوں کا ساتھ دیا تو سارے کا سارا خاندان مٹا دیا جائے گا۔

آہ! یہ انسانیت کی کون سی قسم ہے? لارڈ اتنا بے بس انسان کب تھا? کیا قصور تھا انجی کے باپ کا، صرف اتنا کہا کہ "میں اس ناجائز جنگ میں ان درندوں کا آلہ نہیں بنوں گا"۔ کس بے رحمی سے اسے گولیوں سے چھلنی کیا تھا۔ گاؤں کے چوک میں، چھوٹے چھوٹے بچوں کے سامنے، انجی کی ماں کے سامنے۔ وہ بچاری تو بھاگی تھی اپنے شوہر کو بچانے ان کے قدموں میں گرگئی تھی۔ مگر بچے سے تھی ان لوگوں کے کسی کام کی نہ تھی اس پر بھی کیسے بےدردی سے پیٹ پر گولی چلائی تھی۔ گاؤں والوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ چپ چاپ اپنے بچے اور جوان آگے کر دیئے۔ کیسا سبق سکھا گئے تھے کہ کوئی نصیحت ہی کام کی نہ تھی۔



***********************

"بوں ژور مسٹر فلپ"!

"آہا آج میری بیٹی آئی ہے، بوں ژور انجی، کیسی ہو بیٹا?"

"میں اچھی ہوں مسٹر فلپ، آپ کیسے ہیں?"

" چل رہا ہے بیٹا، جو لارڈ دے رہا ہے اس پر گزارہ کر رہے ہیں اور شکرگزار ہیں۔ تمہاری ماں کا کیا حال ہے"?

" ویسا ہی ہے جیسا آپ پچھلی دفعہ دیکھ کر گئے تھے"۔ انجی نے ایک جھجھکتی ہوئی نظر کچھ گلے ہوئے بچے پھلوں اور سبزیوں پر ڈالی۔

فلپ خوب جانتا تھا وہ صبح سے بھوکی ہے، مگر وہ مانگے گی نہیں وہ لوکس کمبونا کی بیٹی ہے بھوکی مرجائے گی مگر بھیک نہیں مانگے گی۔ انجی کی اس ایک نظر نے فلپ کا دل جیسے مٹھی میں مسل دیا۔ فوراً بات بدل کر بولا۔

"دیکھو انجی بچے، تم ہمت رکھو، میری کو پتہ ہے کہ تم پر بہت مشکلیں ہیں اور وہ تم سے بہت خوش ہیں یہ دیکھ کر کہ تم اپنی ماں کا کس طرح خیال رکھتی ہو۔ وہ جلد تمہیں اپنے گھر بلائیں گی تم جاؤ گی نا چرچ? وہاں میری اور اس کا بیٹا تمہارا بہت خیال رکھیں گے"۔

" نو مسٹر فلپ! میں اپنی ماں کے بغیر کہیں نہیں جاؤں گی۔ اگر میری ماں ساتھ جائے گی تب ہی میں جاؤں گی۔"

فلپ نے دیکھا کہ بچی تھک کر چور ہے اور یہ بات سمجھ نہیں رہی تو جلدی سے بات بدلی اور کہا۔

"چلو آؤ میں تمہیں گھر چھوڑ دوں اور تمہاری ماں سے بھی مل لوں گا اور یہ دیکھو میں کیا لایا ہوں تمہارے لیئے۔ فلپ نے سامنے پڑے ایک چھوٹے سے پرانے پانی کے ٹینک کی طرف اشارہ کیا۔

"پانی?"

"ہاں پانی!" فلپ نے ایک نظر اس کی ابتر حالت پر ڈالی اور بولا۔

"یہ لو بالٹی، اس میں پانی بھرو۔ تب تک میں یہ سب اندر رکھ دوں اور کلارا کے کچھ کپڑے ہیں وہ لے آؤں۔"

پانی کو دیکھ کر انجی کی پیاسی نگاہوں میں چمک پیدا ہوئی۔

"آہ پانی! لارڈ پانی!۔ ۔ ۔ " اس نے بے اختیار اپنے کالے ہاتھ پانی سے بھری بالٹی میں ڈال دیئے اور اس کی ٹھنڈک کو محسوس کرنے لگی۔

فل ایک پرانے مگر صاف ستھرے لباس کے ساتھ نمودار ہوا۔ یہ کلارا کا ڈریس تھا۔ انجی نے بچپن میں اکثر کلارا کو اس لباس میں دیکھا تھا۔ وہ جانتی تھی فلپ کے پاس اپنے بچوں کی بس یہی یادیں باقی ہیں۔ اس نے چپ چاپ فلپ کے ہاتھوں سے ڈریس اور صابن لیا اور بالٹی سمیت درختوں کے اس پار گم ہوگئی۔



*****************************

انجی کی ماں مرنے سے بچ تو گئی تھی۔ مگر موت سے بدتر حالت میں تھی۔ کمر سے سارا نچلا حصہ مفلوج ہوچکا تھا۔ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورت کے لئے بھی محتاج تھی۔ مگر انجی کے لئے وہ ساری دنیا تھی، اس کی کل کائنات، اس کا واحد سہارہ جس کی خاطر وہ سارا دن اپنی ہڈیاں پیستی تھی۔ وہ دو تین کالے نوٹوں سے اس کے لئے دودھ، سبزی، فالج زدہ جسم پر ملنے کو مرہم، اور پانی ہاں پانی بھی قیمت چکا کر ملتا تھا۔ خریدتی تھی۔ وہ اپنی مرتی ماں کے لئے انتھک محنت نہیں کررہی تھی بلکہ اپنی مرتی امید کو بچانے لئے کر رہی تھی۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں اسے سمجھ نہیں رہا تھا کہ وہ اس بےبسی اور بیچارگی کے عالم میں کس سے اور کیسے مدد طلب کرے۔

"لارڈ میری ماں کو زندہ رکھنا چاہے اسے زندہ رہنے میں کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔ تو اسے میرے لئے زندہ رکھنا۔ آئی پرامس میں کل آج سے زیادہ محنت کروں گی۔ وہ اپنے رب کے سامنے جھک جاتی۔



********************************

فلپ نے جینیفر، کو سہارہ دے کر بٹھایا اور اپنے ہاتھوں سے دودھ اور پھل کھلائے۔ وہ اپنی حالت کے پیش نظر ہلکی اور نرم خوراک ہی لے سکتی تھی۔ جس میں دودھ اس کی بقا کے لئے بہت ضروری تھا۔ گھر کی حالت بھی مکینوں کی طرح ہی ابتر تھی۔ نا نرم بستر نا گرم لحاف، فلپ کی مہربانی سے ایک پرانا اڈھڑا ہوا لحاف میسر تھا۔ گاؤں کے لوگ تو کب کے لٹ چکے تھے۔ مخالفی جب چاہے گاؤں میں گھس آتےجو تھوڑا بہت ہوتا وہ بھی لوٹ لیتے۔

انجی نے کان سے لائے کوئلے سرد رات سے مقابلہ کرنے کو سلگائے۔ وہ کلارا کے صاف ستھرے کپڑے پہن کر اور فلپ کے ہاتھوں کے بنے ابلے آلو کا میش کھا کر کچھ گھنٹوں کے لئے ہی سہی خوش اور مطمئن نظر آرہی تھی۔ پیٹ بھرجانے کے بعد اب آنکھیں خودبخود بند ہو رہی تھیں ۔کوئلوں کی تپش اس کے تھکے اعضاء کو تھپکیاں دے رہی تھی۔ وہ جلد ہی اماں کے ساتھ پرانے لحاف میں دھنس گئی۔ کل پھر وہ ہوگی اور کوئلے کی کان لیکن ابھی اس وقت وہ پیٹ کی آگ کے بجھنے اور صاف ستھرا ہونے پر بہت خوش تھی اور جی بھر کر سونا چاہتی تھی۔ جلد ہی وہ آس پاس سے بے خبر ہوگئی۔



**************************

فلپ نے کچھ دیر انتظار کیا جب یقین ہوگیا کہ انجی گہری نیند میں ہے تو جینیفر کی طرف متوجہ ہوا۔

"جینی! اب وقت آگیا ہے ۔ اب دیر مت کرو۔ اس بار اگر وہ لوگ آدھمکے تو سمجھو انجی تو گئی۔ ۔ ۔ "

"ھیل میری۔ ۔ ۔ ھیل میری! فل ایسی باتیں مت کرو، لارڈ میری بچی کی حفاظت کرے۔

"جینیفر لارڈ کیسے حفاظت کر سکتا ہے جب تک تم کوئی فیصلہ نہیں کرو گی تم اسے لارڈ کی حفاظت میں دوگی تب ہی وہ مدد کرے گا۔ یہ اس کا بھی وعدہ ہے اگر ہم کوشش کریں گے تب ہی وہ ہمارا ساتھ دے گا ۔لیکن ہم اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوں گے کہ کوئی غیبی مدد آجائے گی تو یہ سب وہم ہے تمہارا اب تک نہ سرکاری ادارے نہ باہر والوں نے کچھ کیا۔ مجھے تو شک ہے کسی کو ہمارے حالوں کا پتا ہی نہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم باقی بچی ہوئی زندگی بھی پچھتاؤوں میں نکال دیں ہمیں انجی کو لے جانا ہوگا۔ میں واپس آکر جتنا ہو سکا تمہارا خیال رکھوں گا مگر خدارا انجی کو جانے دو۔

"تم ٹھیک کہہ رہے ہو فل مجھے خودغرض نہیں ہونا چاہیئے۔ میں اپنے آخری دن کسی نہ کسی طرح بتا لوں گی کم از کم دل کو اتنا سکون تو ہوگا کہ میں نے اپنی بچی کے لئے جوہو سکا کیا اور اسے محفوظ جگہ پر پہنچایا۔ یہاں اگر حالات ٹھیک بھی ہوئے تو یہ خشکی۔ ۔ ۔ نا دانہ نا پانی اور میرے مرنے کے بعد۔ ۔ ۔ نہیں نہیں تم ٹھیک کہتے ہو اسے لے جاؤ فل اسے لے جاؤ ۔



*********************

میرے فیلو ساتھیو! اس بیان کو لکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم دنیا کی بڑی اور نامور این جی اوز کو ان درندوں کی طرف متوجہ کروائیں جو حکومت، طاقت اور اختیارات کے لئے بے گناہ انسانوں کا استعمال کرتے ہیں ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھاتے ہیں۔ سونے اور ہیروں کی اس جنگ جس میں معصوم انسانیت ایندھن کی طرح استعمال ہوتی ہے۔کیا ان کی آہیں وال اسٹریٹ، یورپ کی ہائی اسٹریٹ اور ہیروں کے تجارت کاروں پر اثر انداز ہوتی ہیں?

سچ تو یہ ہے کہ یہ این جی اوز ہو یا افریقن یونیٹی ہو، پیس کیپنگ فورس ہو یا یونائیٹڈ نیشن ہو یہ اس وقت حرکت میں آتی ہیں جب ماں باپ اپنے بچوں کے سامنے ماردیئے گئے ہوتے ہیں۔ یا عورتیں ان کی حوس کا نشانہ بن چکی ہوتی ہیں۔ جب گاؤں کے گاؤں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں، جب بھوک سے بلکتے بچے موت کے دہانے کھڑے ہوتے ہیں۔ جن کو ورلڈ فوڈ کی ہائی فائبر اور ہائی پروٹین غزا بھی زندگی کی طرف نہیں لاسکتی۔ جب ان کے لئے موت اور زندگی کی حیثیت ایک جیسی ہی رہ جاتی ہے۔ جب ان کی آنکھوں میں زندگی کی کوئی حرارت باقی نہیں رہتی۔

اس سے پہلے یہ این جی اوز اپنے میٹنگوں، اجلاسوں، سیمیناروں، مذاکروں، ہنگامی دوروں، ہینڈ شیکوں، وفدوں سے ہائی پاور ملاقاتوں میں لاکھوں خرچ کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔

پھر اس خانہ جنگی پر بننے والی انٹرنیشنل میڈیا کوریج کے بدلے کروڑوں ویورز کی لسٹ میں اضافہ، چینل کی پاپولرٹی، شیرز کے دام، بینک بیلنس میں اضافے، جن کے زیادہ تر اسٹیک ہولڈرز یہی این جی اوز کے اسپونسر ہوتے ہیں۔

بلکہ یہ بتانا ہے کہ ان کی کامیابیوں کے پیچھے انجی جیسے بچوں کی آہیں بھوک اور سسکیاں ہوتی ہیں جب وہ اتنی بلند ہو جاتی ہیں تب دنیا کی طاقتور اور مضبوط ترین اکانومی بھی کسی تھرڈ ورلڈ کے تھرڈ کلاس ملک کی طرح ڈھے جاتی ہے۔

*******************************

Wednesday, June 23, 2010

ایک سوچ!


کبھی سوچا ہے کہ ایک سادہ سا بلب 40 یا 60 واٹس کا جو روزانہ جلتا ہے اور ایک دن سوئچ آن کیا اور جھماکہ اور بس ختم، لیکن یہ نہپیں معلوم ہوتا کہ اس بلب نے اس وقت جل جانا ہے ۔ یہ زندگی بھی اسی طرح ہے کب جانے بلب کی طرح گل ہوجائے اور سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جائے۔
زندگی ہمیں اس طرح سے اپنے اندر الجھائے ہوئے ہے کہ ہم کبھی رک کر، کسی چیز پر غور کئے بغیر اپنی سمتوں کی طرف رواں دواں ہیں اور ہمارا سفر جاری و ساری ہے ایسے میں کبھی ایک دھچکا لگتا ہے اور سویا ہوا ذہن جھٹکے سے بیدار ہوجاتا ہے اور پھر زندگی کی اس بے ثباتی پر سوال جواب شروع ہوجاتے ہیں۔ دل وذہن میں جنگ ہوتی ہے۔ اور اگر دھچکا بڑا لگا ہوتو مستقل مزاج کے لئےزندگی کا رخ بدل جاتا ہے ورنہ عارضی طور پر ۔اور پھر رنگینیاں پھر اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔
کچھ دن پہلے میرے ابو کے ایک پرانے بزنس اسسٹنٹ کا اچانک انتقال ہوگیا۔ ابو کو اس کے انتقال کی اطلاع بروقت نہ مل سکی تھی کسی تیسرے شخص نے آکر یہ افسوسناک خبر دی۔ ہم سب اس کی جواں مرگی پر دنگ رہ گئے تھے۔ کیونکہ اس شخص کی زندگی ہمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح تھی۔
اس کا نام سعید تھا۔ وہ کرسچن پریسبائٹرین فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ بہت غربت اور افلاک میں پلا بڑھا۔ اور پھر اس طبقے کی برائیوں کا شکار ہوا۔ تھوڑی بہت ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ تھوڑا بڑا ہوا تو پور پور تک برائی اور بدکاری میں ڈوب چکا تھا۔ اس کے والد کے اصرار پر ابو نے اسے جاب دی۔ مگر اس وقت ابو نہیں جانتے تھے کہ وہ کس قسم کا بندہ ہے۔ بہرحال جب اس نے کام شروع کیا اس وقت ابو کا ایک اور سینئر اسسٹنٹ بھی تھا اور وہ اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔ اس کا نام محمد علی ہے۔ وہ الحمدللہ مسلمان ہے اور صرف نام کا ہی نہیں بلکہ اپنے ایک ایک فعل سے بھی مسلمان ہے۔
محمد کی کمپنی میں رہ کر آہستہ آہستہ سعید بدلنے لگا۔ اپنی پرانی عادتوں کو چھوڑا، شام کی آوارہ گردیوں کو چھوڑا اور چرچ جانا شروع کیا اور اپنے گناہوں سے توبہ کی۔ سب سے پہلے محمد کے کہنے پر سعید نے اپنی محنت کی کمائی کو شراب پر لٹانا چھوڑا۔ ایک کے بعد ایک اس کی شخصیت، رہن سہن، بول چال سب تبدیل ہوا اور چند سالوں ہی میں وہ ایک پرفیکٹ جنٹل مین کی صورت سامنے آیا۔ پھر اس نے اپنے ہی ہم مذہب لڑکی سے شادی کر لی۔
جب ابو اس کی شادی پر گئے تھے تو تحفہ دینے کے بعد اس کی بیوی سے کہا کہ سعید پر اتنا بوجھ مت ڈالنا کہ وہ پھر بھٹک جائے۔ مگر اس کی بیوی اس سے زیادہ ثابت قدم تھی۔ خدا نے اس کو دو پیارے پیارے بچے دیئے۔ اس دوران اس نے ہمارے ساتھ کام چھوڑ کر اپنے چرچ کے آس پاس ایک چھوٹی سی شاپ کھولی اور اپنے چرچ سے ہی قرض لے کر اپنا چھوٹا سا بزنس شروع کیا۔ بہت محنت اور ذمہ داری سے کام کیا۔ اپنی کمیونٹی میں بھی وہ کافی مشہور ہوگیا تھا کیونکہ کام کے بعد وہ شام کو چرچ میں والنٹری امور بجا لاتا تھا۔
جب آخری دفعہ ابو کی اس سے ملاقات ہوئی تب ان کے مطابق وہ ایک بلکل بدلا ہوا آدمی تھا۔ اپنی زندگی سے مطمئن اور محنت و جدوجہد پر یقین رکھنے والا۔ ابو نے کہا یہ بندہ یقیناً بہت آگے جائے گا۔ ۔ ۔ خیر۔ ۔ آگے تو سب نے ہی جانا ہے۔ لیکن ایسے اچانک، بیچ راستے میں? جب کہ اب تو منزل بھی قریب تھی۔ گمراہی سے بھی نکل چکا تھا۔ محمد نے تو صرف دھکا ہی لگایا تھا اس کے بعد تو اس کی خود کی ہی محنت تھی۔ تیئس چوبیس سال تک ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں میں ملوث رہنے کے بعد جب روشنی ملی تو صرف پانچ چھے سال۔ ۔ اور بس زندگی تمام۔
سعید کے مرنے کے بعد یہ گول دائرے کا چکر پھر وہیں پر آرکا جہاں سے شروع ہوا تھا یعنی سعید کے بچے اسی جگہ پر ہیں جہاں سعید اپنے بچپن میں تھا اور اسی طرح کی غربت اور افلاک کا شکار ہیں۔ میری اس کے بچوں کے لئے صرف یہ دعا ہے کہ سعید کے چرچ والے اس کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے بچوں کی مدد کرے اور اس کی تعلیم و پرورش کی ذمہ داری اٹھائیں تاکہ ان کا بچپن سعید کے بچپن کی طرح نہ گزرے بلکہ سعید کی زندگی کے آخری چند سالوں جیسا خوش اور مطمئن گز
رے۔