Wednesday, June 23, 2010

ایک سوچ!


کبھی سوچا ہے کہ ایک سادہ سا بلب 40 یا 60 واٹس کا جو روزانہ جلتا ہے اور ایک دن سوئچ آن کیا اور جھماکہ اور بس ختم، لیکن یہ نہپیں معلوم ہوتا کہ اس بلب نے اس وقت جل جانا ہے ۔ یہ زندگی بھی اسی طرح ہے کب جانے بلب کی طرح گل ہوجائے اور سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جائے۔
زندگی ہمیں اس طرح سے اپنے اندر الجھائے ہوئے ہے کہ ہم کبھی رک کر، کسی چیز پر غور کئے بغیر اپنی سمتوں کی طرف رواں دواں ہیں اور ہمارا سفر جاری و ساری ہے ایسے میں کبھی ایک دھچکا لگتا ہے اور سویا ہوا ذہن جھٹکے سے بیدار ہوجاتا ہے اور پھر زندگی کی اس بے ثباتی پر سوال جواب شروع ہوجاتے ہیں۔ دل وذہن میں جنگ ہوتی ہے۔ اور اگر دھچکا بڑا لگا ہوتو مستقل مزاج کے لئےزندگی کا رخ بدل جاتا ہے ورنہ عارضی طور پر ۔اور پھر رنگینیاں پھر اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔
کچھ دن پہلے میرے ابو کے ایک پرانے بزنس اسسٹنٹ کا اچانک انتقال ہوگیا۔ ابو کو اس کے انتقال کی اطلاع بروقت نہ مل سکی تھی کسی تیسرے شخص نے آکر یہ افسوسناک خبر دی۔ ہم سب اس کی جواں مرگی پر دنگ رہ گئے تھے۔ کیونکہ اس شخص کی زندگی ہمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح تھی۔
اس کا نام سعید تھا۔ وہ کرسچن پریسبائٹرین فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ بہت غربت اور افلاک میں پلا بڑھا۔ اور پھر اس طبقے کی برائیوں کا شکار ہوا۔ تھوڑی بہت ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ تھوڑا بڑا ہوا تو پور پور تک برائی اور بدکاری میں ڈوب چکا تھا۔ اس کے والد کے اصرار پر ابو نے اسے جاب دی۔ مگر اس وقت ابو نہیں جانتے تھے کہ وہ کس قسم کا بندہ ہے۔ بہرحال جب اس نے کام شروع کیا اس وقت ابو کا ایک اور سینئر اسسٹنٹ بھی تھا اور وہ اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔ اس کا نام محمد علی ہے۔ وہ الحمدللہ مسلمان ہے اور صرف نام کا ہی نہیں بلکہ اپنے ایک ایک فعل سے بھی مسلمان ہے۔
محمد کی کمپنی میں رہ کر آہستہ آہستہ سعید بدلنے لگا۔ اپنی پرانی عادتوں کو چھوڑا، شام کی آوارہ گردیوں کو چھوڑا اور چرچ جانا شروع کیا اور اپنے گناہوں سے توبہ کی۔ سب سے پہلے محمد کے کہنے پر سعید نے اپنی محنت کی کمائی کو شراب پر لٹانا چھوڑا۔ ایک کے بعد ایک اس کی شخصیت، رہن سہن، بول چال سب تبدیل ہوا اور چند سالوں ہی میں وہ ایک پرفیکٹ جنٹل مین کی صورت سامنے آیا۔ پھر اس نے اپنے ہی ہم مذہب لڑکی سے شادی کر لی۔
جب ابو اس کی شادی پر گئے تھے تو تحفہ دینے کے بعد اس کی بیوی سے کہا کہ سعید پر اتنا بوجھ مت ڈالنا کہ وہ پھر بھٹک جائے۔ مگر اس کی بیوی اس سے زیادہ ثابت قدم تھی۔ خدا نے اس کو دو پیارے پیارے بچے دیئے۔ اس دوران اس نے ہمارے ساتھ کام چھوڑ کر اپنے چرچ کے آس پاس ایک چھوٹی سی شاپ کھولی اور اپنے چرچ سے ہی قرض لے کر اپنا چھوٹا سا بزنس شروع کیا۔ بہت محنت اور ذمہ داری سے کام کیا۔ اپنی کمیونٹی میں بھی وہ کافی مشہور ہوگیا تھا کیونکہ کام کے بعد وہ شام کو چرچ میں والنٹری امور بجا لاتا تھا۔
جب آخری دفعہ ابو کی اس سے ملاقات ہوئی تب ان کے مطابق وہ ایک بلکل بدلا ہوا آدمی تھا۔ اپنی زندگی سے مطمئن اور محنت و جدوجہد پر یقین رکھنے والا۔ ابو نے کہا یہ بندہ یقیناً بہت آگے جائے گا۔ ۔ ۔ خیر۔ ۔ آگے تو سب نے ہی جانا ہے۔ لیکن ایسے اچانک، بیچ راستے میں? جب کہ اب تو منزل بھی قریب تھی۔ گمراہی سے بھی نکل چکا تھا۔ محمد نے تو صرف دھکا ہی لگایا تھا اس کے بعد تو اس کی خود کی ہی محنت تھی۔ تیئس چوبیس سال تک ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں میں ملوث رہنے کے بعد جب روشنی ملی تو صرف پانچ چھے سال۔ ۔ اور بس زندگی تمام۔
سعید کے مرنے کے بعد یہ گول دائرے کا چکر پھر وہیں پر آرکا جہاں سے شروع ہوا تھا یعنی سعید کے بچے اسی جگہ پر ہیں جہاں سعید اپنے بچپن میں تھا اور اسی طرح کی غربت اور افلاک کا شکار ہیں۔ میری اس کے بچوں کے لئے صرف یہ دعا ہے کہ سعید کے چرچ والے اس کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے بچوں کی مدد کرے اور اس کی تعلیم و پرورش کی ذمہ داری اٹھائیں تاکہ ان کا بچپن سعید کے بچپن کی طرح نہ گزرے بلکہ سعید کی زندگی کے آخری چند سالوں جیسا خوش اور مطمئن گز
رے۔

3 comments:

  1. Anonymous29.6.10

    اردو بلاگ کی دنیا میں خوش آمدید

    ReplyDelete
  2. شکریہ عثمان بھائی!

    ReplyDelete
  3. نایاب سس،تحریر بڑی متاثر کن ہے۔ اور عنوان کی صحیح عکاسی کرتی ہوئی۔

    ReplyDelete