Sunday, May 29, 2011

بے زباں نہیں ہم



کہتے ہیں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں لیکن اگر کسی بھلے مانس سے پوچھا جائے تو کہیں گے کہ دیواروں کے کان نہیں بلکہ زبان ہوتی ہے وہ بولتی ہیں ان سے، جو سننا چاہے، وہ دکھاتی ہیں ان کو، جو دیکھنا چاہے۔ نہ صرف اپنی داستان سناتی ہیں بلکہ اپنے اطراف کی کہانیاں بھی کہتی ہیں۔

انسان کے جسم کی سب سے نمایاں چیز اس کا چہرہ ہوتا ہے اور اس چہرے کے اندر چھپی اس کی زبان۔ جب وہ زبان کھولتا ہے تب اس کی اصلیت سامنے آتی ہے۔ زبان ایسی چیز ہے جو چہرے کا اہم حصہ ہونے کے باوجود چہرے پر واضح موجود نہیں بلکہ لب و دہن کے پردے میں محفوظ ہے۔ اسی طرح دیواریں بھی ایک گلی، محلے اور شہر کا چہرہ ہوتی ہیں اور ان کی زبان سپیدی اور رنگ و روغن کے پردے کے پیچھے محفوظ۔ ہوتی ہے۔ مگر کبھی کبھار حالات کے ہاتھوں ان کو برہنہ بھی ہونا پڑتا ہے۔

ہر علاقے کی سب سے زیادہ آگہی اس کی دیواروں کو ہوتی ہے نہ صرف انہیں اپنے علاقے کی زبانوں پر عبور ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے علاقے اور اس کی سوچ کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ کہیں صاف ستھری سوچ تو کہیں گندی غلیظ باتیں۔ کہیں کسی کو راستہ دکھاتی ہیں تو کہیں راستے سے بھٹکاتی ہیں۔ کہیں شر اور فساد کے لئے ورغلاتی ہے تو کہیں اسلام اور انسانیت کا پیغام دیتی نظر آتی ہیں۔ کہیں کسی کے معاشی، ازدواجی اور تعلیمی مسئلوں کا حل بتاتی ہیں۔ تو کہیں اندھے اعتقاد والوں کو سنہرا مستقبل اور راتوں رات امیر بننے کے سپنے دکھاتی ہیں۔

ان دیواروں کے بھی اپنے اپنے دکھ ہوتے ہیں کبھی خاموشی حد سے سواء ہو جاتی ہے اور اندر کا حال چھپانا مشکل ہوجاتا ہے تب اپنا دکھ باہر لاتی ہیں۔ وہ دکھ اس کی شفاف سپیدی پر داغ لگاتے ہیں اسے آہستہ آہستہ غلیظ کرتے ہیں کبھی یہ داغ کسی راز کا پردہ چاک کرتے ہیں تو کبھی کسی کی اصلیت کو اجاگر کرتے ہیں کبھی ظلم کے خلاف صداء احتجاج بنتے ہیں تو کبھی مظلوم کے ساتھ یکجہتی کا دم بھرتے ہیں-

دیواروں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔ شرفاء کی دیواریں اپنی ساری غلاظتیں رنگوں کی گہری تہوں میں چھپائے صاف ستھری اور غرور و تمکنت سے اٹھی ہوتی ہیں ان کی زبانیں ان کے مالکوں کی طرح خاموش ہوتی ہیں۔ مگر ان کا ذرہ ذرہ زبان بن کر بول رہا ہوتا ہے کہ وہ ان سے زیادہ بااختیار دیواروں کی مطیع ہیں اور اگر زبان کھولی تو ڈھا دی جائے گی۔

غریبوں کی دیواریں بہت بہادر اور مضبوط ہوتی ہیں یہ ان کا بہت بڑا سہارا ہوتی ہیں۔ ان کی دیواریں سچ بولتی ہیں۔ اپنی غربت اور کم مائیگی پر شرمندہ نہیں ہوتیں بلکہ اپنی تمام تر بدصورتیوں کے ساتھ بھی سر اٹھا کر کھڑی ہوتی ہیں۔ وہ وہاں کے حاکموں کے منہ پر طمانچہ ہوتی ہیں اسی لئے وہاں کے شرفاء اورکرتا دھرتا اس راستے سے ہی اجتناب برتتے ہیں۔

مظلوم کو چونکہ انصاف میسر تو ایک طرف وہ انصاف کے لئے کھلے عام آواز بھی نہیں اٹھا سکتے ایسے میں یہ دیواریں ان کی آوازیں بن جاتی ہیں۔ کبھی ان دیواروں کے شور سے تنگ آکر اسے ڈھادیا جاتا ہے تو کبھی اس کے داغوں کو دھو کر نئے رنگوں سے سجا دیا جاتا ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ کبھی جبر ان پر حاوی نہ ہوسکا اور ایک دن انہیں دیواروں نے تختے الٹ دیئے۔

کچھ لوٹا دیواریں ہوتی ہیں۔ جو بضرورت وقت اپنا رنگ ڈھنگ بدلتی رہتی ہیں۔ یہ دیواریں حاکم وقت اور ان کی پارٹیوں کی غلامی میں ہوتی ہیں اور ان کی خیر اسی میں ہوتی ہے کہ جو صاحب اقتدار ہے اس کا دم بھرتی رہیں۔ دوسری طرف مخالفون کی بھی اپنی دیواریں ہوتی ہیں جو حکومتوں پر کیچڑ اچھالنے کے کام کرتی ہیں۔

سب سے زیادہ جمہوریت بھی انہیں دیواروں میں ہوتی ہے۔ انہیں آزادی فکر و خیالات فریڈم آف سپیچ بھی حاصل ہوتی ہے۔ وہ جھوٹ بولنے سے نہیں ڈرتی۔ وہ ہر قسم کے طبقوں اور مزاجوں کی عکاسی کرتی ہے۔ سب سے بڑی بات مستقل مزاج ہوتی ہیں۔ اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو کسی بھی ترقی پذیر ملک میں جمہوریت کی داغ بیل یہ ہی ڈال سکتی ہیں لہذا صحیح معنوں میں انہیں ہی ملک کی سربراہی ملنی چاہیئے۔

کچھ دیواریں کسی بدنصیب قیدی کے ساتھ بند، اس کی تنہائیوں میں غم گساری کرتی ہیں۔ کسی رازدار دوست کی طرح اتنے قریب کہ وہ اس کے سارے غم اور دکھ درد اپنے دامن میں سمو لیتی ہے۔ اس بدنصیب کی زندگی کے لمحہ بہ لمحہ بجھتے چراغ اور قید کی صعوبتوں کی وہ واحد گواہ ہوتی ہے۔ لیکن وہ خاموش گواہ پھر بھی نہیں ہوتیں اس کی پیشانی پر ایک ایک لمحے کی داستان رقم ہوتی ہے۔ پھرایک وقت آتا ہے جب قیدی زندگی کی جنگ ہار جاتا ہے اور قید خانے کا دروازہ کھلتا ہے۔ جب اس کی زبان برہنہ ہوتی ہے وہ چیخ چیخ کراپنے قیدی کی داستان سناتی ہے۔





عمر دراز مانگ کے لائے تھے چاردن

دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

دن زندگی کے ختم ہوئے، شام ہوگئی

پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کنج مزار میں



2 comments:

  1. شکریہ دوست

    بلاگ اسپاٹ کے اردو سانچے کے لئے آپ یہاں تشریف لے جائیے ۔

    ReplyDelete
  2. شکریہ دوست

    بلاگ اسپاٹ کے اردو سانچے کے لئے آپ یہاں تشریف لے جائیے ۔

    http://www.yasirnama.com/search/label/%D8%A8%D9%84%D8%A7%DA%AF%20%D8%B3%D9%BE%D8%A7%D9%B9%20%DA%A9%DB%92%20%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88%20%D8%B3%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%92

    شکریہ


    اور ایک درخواست ہے کہ اگر کمینٹ میں سے کوڈ کو نکال دیں تو VISITOR کی تکلیف کم ہوگی ۔۔

    ReplyDelete