Friday, June 17, 2011

ایک حقیقت ایک خواب



میں شاید بہت تھکا ہوا تھا اس لئے گہری اور بے خواب نیند سویا تھا۔ ایسے سونا اچھا لگ رہا تھا۔ ۔ ایک عرصے کے بعد اتنی پرسکون نیند میسر ہوئی تھی۔


 
"اوں ہوں۔ ۔ یہ کون کندھا ہلا کر جگا رہا ہے"۔ اسلم ہوگا۔ ۔وہ ہمیشہ ایسے ہی کندھا ہلا کر جگاتا ہے یہ دیکھے بغیر کہ باپ کتنا تھک کر سویا ہے اور وہ بھی انسان ہے کبھی اس کے آرام کا بھی خیال کرلیا کرے۔ یہ زینب بھی ناں کچن میں ایسے گھس جاتی ہے جیسے کچن سے باہر دنیا ہی نہ ہو۔ بچے کہاں ہے، شوہر کہاں ہے کچھ خبر ہی نہیں۔ ۔ لائٹیں پنکھے سارے جل رہے ہوں گے۔ چھوٹی غسل خانے کا نل کھولے کھیل کم اور غسل خانہ زیادہ گیلا کر رہی ہوگی۔ اسلم پورا ولیوم کھولے ٹی وی میں مگن ہوگا۔ ۔ ۔لاحول ولا قوتہ۔ ۔ ۔چھٹی کے دن بھی آرام ندارد۔



 
"اسلم چھوڑو میرا کندھا کیوں جھنجھوڑ رہے ہو یار۔ کچھ دیر سونے دو باپ کو۔" میں کسمسایا۔ ۔ لیکن شاید ایک ہی رخ پر بہت دیر سونے سے سارا جسم اکڑ گیا تھا۔ کسمسانا تو کجا ایک انگلی تک محسوس نہیں ہورہی تھی۔



 
یہ کانوں میں کیسی آوازیں آرہی ہیں۔ کیا نماز کا ٹائم ہے اور اذان ہورہی ہے۔ ۔ ۔"اوں ہوں آج نہیں بھئی بہت تھکا ہوا ہوں کل پڑھ لوں گا۔ ۔ ۔ ارے چھوڑو بھی میرا کندھا دیکھ نہیں رہے ہلنا بھی محال ہے۔ ۔ اٹھ جاؤں گا نا یار نیند تو پوری کر لینے دو۔ ۔ ۔دیکھو کیسی اکڑن ہورہی ہے ہٹو ذرا پلٹنے دو کہ ایک طرف سوتے سوتے جیسے سارا جسم سن سا ہوگیا ہے۔"

 

"یہ کیسی آوازیں ہیں جو مسلسل کانوں کے قریب ہی سنائی دے رہی ہیں۔ ۔ اسلم کے بچے نے کندھا ہلا کر ڈسٹرب کردیا۔ ۔ اب تھکن اور نیند کے مارے دیکھو ایسے ڈروانے خواب۔ ۔ ۔ زینب!۔ ۔ یار کب سمجھو گی۔ ۔ ۔ کہو ناں اس بدتمیز سے کہ ٹی وی کا ولیوم کم کرے۔ ۔پتہ نہیں کیا چل رہا ہے ٹی وی میں۔ ۔ ۔ ۔ سب مسلسل بین کر رہے ہیں۔۔ ۔ چیخ چلا رہے ہیں۔ ۔ ۔ دل ہولائے دے رہے ہیں۔ ۔ ۔اور اسلم کو دیکھو مزے سے دیکھ رہا ہوگا۔ ۔ہونہہ آجکل کے سارے ہی ڈرامے رونے دھونے والے ہوتے ہیں۔ اتنی ٹینشن کی زندگی میں کبھی ہنسانے کا کام بھی کر لیا کریں۔"



 
"ارے۔ ۔ ارے۔ ۔ یہ کیا کر رہے ہو۔ ۔ کیوں مل کر مجھے اٹھا رہے ہو۔ ۔ ۔ اف اف الہی۔ ۔ یہ کیسا درد سارے جسم کو جکڑے ہوئے ہے۔ ۔ میں خود ہی رخ پلٹ لوں گا بھئی۔ ۔ مجھے سارا وقت سیدھا اکڑ کر سونے کی عادت نہیں ہے۔ ۔ ۔ چھوڑو تو سہی۔ ۔ ۔ ایسے کرتے ہیں کتنا درد ہورہا ہے ہر جگہ۔ ۔ ۔مدد ہی کرنا ہے تو ذرا آرام سے یار۔ ۔ ایسے ہی دل کا مریض تو نہیں ہوں۔ ۔ مجھ غریب پر رحم بھی کر لیا کرو۔"


 
"اب کیا ہوا۔ ۔ یہ کہاں پٹخ دیا ہے مجھے۔ ۔ وہیں ٹھیک تھا ناں اپنے آرام دہ بستر پر۔ ۔ یہ کہاں لکڑی کا تختہ نیچے رکھ دیا۔ ۔ ۔ دیکھا زینب۔ ۔ تم گھسی رہو کچن میں اور یہاں یہ لوگ مجھے آرام دینے کے بجائے تشدد پر اتر آئے ہیں۔"



 
"اوہو۔ ۔ اب نیند خراب ہوچکی ہے اسی لئے ایسے خواب آرہے ہیں۔ ۔ ۔لیکن یہ کیسا درد ہے جو سہا نہیں جارہا۔ ۔ ۔ اور یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ۔ ۔ ۔ ایسے خواب تو پہلے کبھی نہیں آئے۔ ۔ کبھی پانی گر رہا ہے۔ ۔ ۔ کبھی بے دردی سے مجھے ہلایا جلایا جارہا ہے۔ ۔ ۔ اور یہ بو کیسی ہے جو مجھے اپنے جسم پر محسوس ہورہی ہے۔ ۔ ۔ یہ کون مجھ پر اس طرح جھکا ہوا ہے۔ ۔ کچھ پڑھ بھی رہا ہے۔ ۔ ۔اور مجھے کسی ٹھنڈے ٹھنڈے کپڑے میں لپیٹ بھی رہا ہے۔ ۔ ۔ آنکھوں میں کیسا حزن ہے یہ۔"



 
"تم!۔ ۔ ۔تم بھائی۔ ۔ ۔ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو۔ ۔ ۔اور کیا ہوا ہے جو تمہاری آنکھوں میں پچھتاوے اور ہمیشہ کے لئے کچھ کھو دینے کا غم ہے۔ ۔ ۔ نہ بھائی۔ ۔ ۔ ایسے نہ رو ۔ ۔ مانا کہ غلطی تمہاری تھی اور برسوں سے ہم نے ایک دوسرے کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ ۔ ۔تم تمہاری زندگی میں تھے۔ ۔ ۔میں میری۔ ۔ ۔جیسے ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے مر ہی تو گئے تھے۔ ۔ مگر ہو تو میرے ماں جائے۔ یہ حقیقت تو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ ۔ ۔آجاؤ اب گلے لگ جاؤ بھائی میں نے تمہیں معاف کیا۔۔ ۔ اب تم بھی مجھے معاف کردو۔ ۔ ۔ لیکن دیکھو پہلے یہ کافور و لوبان یہاں سے ہٹاؤ۔۔ ۔ اس کی خوشبو مجھے ہولائے دے رہی ہے۔ ۔ ۔ جیسے خدانخواستہ۔ ۔"



 
"دیکھو زینب! بھائی آگیا۔ ۔ ۔میں نہ کہتا تھا وہ میرا بھائی ہے۔ ۔ ضرور آئے گا۔ ۔ ۔ارے زینب رو کیوں رہی ہو۔ ۔ ۔ کسی نے کچھ کہہ دیا کیا۔ ۔ ۔اور اسلم اور چھوٹی کو کیا ہوا۔ ۔ ۔ایسے تڑپ تڑپ کر کیوں رو رہے ہو تم لوگ۔ ۔ ۔ میرے دل کو جانے کیا ہورہا ہے۔ ۔ ۔دیکھو ایسے نہیں روتے۔ ۔ ۔ مانا مجھ سے بہت بھول ہوئی ہیں۔ ۔ تمہارے حقوق میں بھی شاید کوتاہی ہوئی ہے۔ ۔ ۔ مگر انسان ہوں نا۔ ۔ ۔ معاف کردو یار۔ ۔ ۔ اب ایسا نہیں کروں گا۔"


 

"یہ سب اتنی میٹھی زبان میں کیا پڑھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ کہ ان کے پڑھنے سے نور سا پھیل رہا ہے۔ ۔ ہاں! میں سمجھ رہا ہوں یہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ میں بچپن سے پڑھتا آرہا ہوں۔ ۔ ۔ اب تو اسلم بھی ایسے ہی میٹھی آواز و لہجے میں پڑھتا ہے۔ ۔ ۔اور ہاں چھوٹی نے بھی تو شروع کردیا ہے۔ ۔ ۔میرے دہلتے لرزتے دل کو سکون سا مل رہا ہے۔ ۔ ارے ! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں۔"



 
"تم نے دیکھا زینب!۔ ۔ ۔ یہ میری گناہگار آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں۔ ۔ ۔ اماں ابا آئے ہیں۔ ۔ میرے سرہانے بیٹھے ہیں۔ ۔ ۔ مجھے یقین نہیں آرہا۔ ۔ کیسا نور پھوٹ رہا ہے ان کے چہروں پر۔ ۔ ۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔ ۔ ۔ آہ کتنا اچھا لگ رہا ہے اماں ابا کو دیکھ کر۔ ۔ کس قدر ہول اٹھ رہے تھے۔ ۔ ۔ڈر سے میرا دل بیٹھا جارہا تھا۔ ۔ ۔ لیکن ان کی موجودگی سے دل کو سکون مل گیا ہے۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ اور کوئی اور بھی ہستی ہے یہاں۔ ۔ ۔"



 
"میں محسوس کر رہا ہوں۔ ۔ ۔ لیکن سمجھ نہیں پارہا کون ہے۔ ۔ ۔ اتنا زیادہ نور پھیلا ہوا ہے کہ آنکھیں چندھیا گئی ہیں۔ ۔ ۔ میں اس نور کی عظمت و بلندی اور اس کے احترام میں سرنگوں کائنات کے ذرے ذرے کو محسوس کر رہا ہوں۔ ۔ ۔ میرا سر شرم سے جھکا ہوا ہے۔ ۔ ۔ یہ میرے خالی ہاتھ اور وجود پر کیسا ان دیکھا بوجھ ہے جس کے تلے میں دھنس رہا ہوں۔ ۔ ۔دل ان کی طرف کھنچ رہا ہے۔ میں ان تک پہنچنا چاہ رہا ہوں۔ ۔ لیکن میرے وجود ہر یہ کیسا غلیظ بوجھ پڑا ہے کہ میں ہل بھی نہیں پا رہا۔ ۔ ۔ میں ہاتھ پیر مار رہا ہوں۔ ۔ ۔خدارا۔ ۔ خدارا اس بوجھ سے نکال مجھے۔"

 

"لوگو! مدد کرو میری، اٹھاؤ مجھے۔ ۔ ۔ میں بے بس ہوں۔ ۔ لاچار ہوں۔ ۔ ۔ یہ میرے ہاتھ، میرے پیر، میرا جسم منوں وزنی ہے۔ میری زبان پر یہ کیسا تالا ہے۔ ۔ ۔ آہ کوئی مجھے اس بوجھ سے چھٹکارا دلائے۔ ۔ ۔ لوگو مجھے اس نور کے پیچھے جانے دو۔ ۔ ۔ مجھے اس تختے پر مت لٹاؤ۔ ۔ ۔ چھوڑ دو مجھے۔ ۔ چھوڑ دو۔ ۔ ۔ اماں ابا میری مدد کریں خدارا۔



"ہاں میں کچھ سکون محسوس کررہا ہوں۔ ۔ ۔ یہ لوگ سر جھکائے ایک صف میں کندھے سے کندھا ملائے کیا پڑھ رہے ہیں کہ میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں۔ میں بھی پڑھنا چاہتا ہوں۔ ۔میں بھی ان کے درمیان کھڑا ہونا چاہتا ہوں اور مغفرت کی دعا مانگنا چاہتا ہوں۔ ۔ ارے مجھے پہلے خیال کیوں نہ آیا۔ ۔ ۔کتنے لوگ تھے جن کے لئے میں نے اس طرح کھڑے ہوکر نماز پڑھی اور مغفرت کی دعا مانگی۔ انگلی پر گنا سکتا ہوں۔"



 
"مگر یہ سب یہاں کیوں جمع ہیں۔ ۔ ۔کس کے لئے یہ سب پڑھ رہے ہیں۔ ۔ اور بھائی کو سب گلے لگا کر کس کی تعزیت کر رہے ہیں۔ ۔ ۔بھائی کا تو میرے سوا اتنا قریبی خونی رشتہ دار تو کوئی نہیں جو بھائی اس قدر نڈھال ہے۔ اور میں کیا اس تختے نما لکڑی کے جنازے میں لیٹا دیکھ رہا ہوں۔ ۔ ۔آگے کیوں نہیں بڑھ رہا بھائی کو سنبھالنے۔ ۔ اور۔ ۔ اور اسلم بھی تو ہے۔ ۔ ۔اتنے لوگوں کے درمیان اکیلا سا۔ ۔ ۔جیسے کہہیں کھو گیا ہو۔ ۔ بھری دنیا میں اکیلا رہ گیا ہو۔ ۔ ۔ بیٹا۔ ۔ ۔اسلم میں یہاں ہوں۔ ۔ ۔ادھر آ بیٹے۔ ۔ ۔تیرا باپ یہاں بےبس لیٹا ہوا ہے۔ ۔ ۔ مجھے اٹھاؤ۔ ۔ مجھے اٹھاؤ۔"


 

"ارے لوگو! یہ تم سب مجھے جنازے میں ڈال کر کہاں لے جارہے ہو۔ ۔ ۔تو کیا میں!۔ ۔ ۔کیا میری ہی موت واقع ہوئی ہے۔ ۔ ۔ نہیں نہیں لوگو، یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ۔ ۔ابھی تو اسلم چھوٹا ہے۔ ۔ ابھی تو چھوٹی صرف سات سال کی ہے۔ ۔ ۔اور زینب۔ ۔ ۔زینب بچاری تو میرے بغیر مر جائے گی۔ ۔ ۔وہ اکیلی اتنی بڑی ذمہ داری کہاں نبھا پائے گی۔ ۔ ۔ ابھی تو اتنے کام باقی ہیں۔ ۔ ۔ اتنے قرض چکانے ہیں۔ ۔ ۔ فرائض باقی ہیں۔ ۔ ۔نمازیں قضا ہیں۔ ۔ ۔ آگے کی کچھ تیاری نہیں۔ ۔ ۔ روزی کمانے میں ہی فرصت نہ مل سکی۔ ۔ ۔دیکھو ابھی مت لے جاؤ۔ ۔ ۔ ابھی میں تیار نہیں ہوں اور زاد راہ کچھ بھی نہیں ہے میرے پاس۔ ۔ ۔ چھوڑ دو لوگو۔ ۔ ۔مجھے واپس لے چلو۔ ۔ ۔میں وعدہ کرتا ہوں۔ ۔ ۔قسم کھاتا ہوں۔ ۔ جو کام رہ گئے ہیں جلد پورے کر لوں گا۔ ایک ایک کو پکڑ کر معافی مانگ لوں گا۔ ۔ ۔ ارے کچھ نہیں تو اتنا تو موقع دو کہ زینب سے اجازت ہی لے لوں۔ ۔ ایک دو وصیتیں ہی کرلوں۔ ۔ ۔اپنے بچوں کو آخری بار سینے سے لگا لوں۔"


 

"نہیں نہیں! ابھی مجھے مٹی تلے مت دباؤ۔ ۔ ۔ دیکھو میرا دم گھٹ رہا ہے۔ ۔ یہاں بہت اندھیرا ہے۔ بہت وحشت ہے۔ ۔ ۔ دیکھو میں ہل بھی نہیں سکتا۔ ۔ ارے میں روشنیوں کا پجاری اس گھپ اندھیرے میں کیسے رہوں گا۔ ۔ ۔ یہ دہشت ناک تنہائی۔ ۔ ۔ ارے میں اس مٹی کے بوجھ تلے کچلا جارہا ہوں۔ ۔ یہ ۔ یہ دیواریں کیوں سکڑ رہی ہیں جو میرے وجود کو دونوں طرف سے کچلے دے رہی ہے۔ ۔ آہ ۔ ۔ یہ میرا پیٹ پھٹا۔ ۔ ۔یا الہی۔ ۔ ۔یا الہی۔ ۔ میری مدد کر۔ ۔ میں بےشک تیرا گناہ گار بندہ ہوں۔ ۔ ۔یا اللہ۔ ۔ ۔یا اللہ۔"


 

"اسلم کے ابّا۔ ۔ ۔ اسلم کے ابّا!۔ ۔ ۔" کندھا اب کے بار پھر زور سے ہلایا گیا۔ ۔ ۔ "آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔ ۔ ۔ایسے پتے کی طرح لرز رہے ہیں۔ ۔ ۔ڈاکٹر کو فون کروں کیا؟"


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭




2 comments:

  1. واہ جی
    بہت خوب
    آپ تو پکی والی رائتر بن گئی ہیں نایاب سس
    اللہ کامیاب کرے آپ کو
    آمین

    ReplyDelete
  2. فکر انگیز ۔۔ اللہ ہمیں وقت رہتے سنبھلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

    ReplyDelete